انٹرنیٹ پر پھیلنے والی ویڈیوز کافی تکلیف دہ ہیں: عمارتیں جل رہی ہیں، تشدد ہوتا نظر آ رہا ہے اور روتی ہوئی خواتین مدد کے لیے چلّا رہی ہیں۔
جو لوگ یہ ویڈیوز شیئر کر رہے ان کے مطابق یہ تمام مواد بنگلہ دیش میں ’ہندوؤں‘ کی نسل کشی کا ایک ثبوت ہے جو کہ شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد شروع ہوئی۔
سٹیفن ییکسلی لینن انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک برطانوی ایکٹیوسٹ ہیں جو کہ ٹومی روبنسن کا نام بھی استعمال کرتے ہیں۔
برطانیہ میں حالیہ دنوں میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے دوران بھی ٹومی نے لوگوں کو اُکسانے والی پوسٹس سوشل میڈیا پر شیئر کی تھیں اور اب بنگلہ دیش کے حوالے سے بھی وہ اسی طرح کی تکلیف دہ ویڈیوز وارننگ کے ساتھ پوسٹ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
لیکن ایک تحقیقات کے نیتجے میں بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ پر اس قسم کی شیئر کی جانے والی زیادہ تر ویڈیوز جھوٹی اور جعلی ہیں۔
ہندوؤں کے مندر پر حملے کا جھوٹا دعویٰ
گذشتہ کئی ہفتوں سے جاری پُرتشدد مظاہروں کے بعد 5 اگست کو شیخ حسینہ نے بطور بنگلہ دیش کے وزیراعظم استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ انڈیا چلی گئی تھیں۔ ان مظاہروں میں تقریباً 400 لوگ ہلاک بھی ہوئے تھے۔
شیخ حسینہ کے استعفے کے بعد ملک میں کچھ مقامات پر جشن کا سماں سا دیکھا گیا لیکن اچانک ایک بار پھر حالات خراب ہوگئے اور لوگوں نے عوامی لیگ کے اراکین پر حملے کرنا شروع کر دیے۔
شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے اراکین میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش میں جاری تشدد اور لوٹ مار سے ہندو تو متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن پڑوسی ملک انڈیا میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انفلوئنسرز سوشل میڈیا پر جھوٹی ویڈیوز اور معلومات شیر کر رہے ہیں، جس سے واقعات کی گمراہ کُن تصویرکشی کی جا رہی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’اسلامی انتہا پسند‘ بنگلہ دیش میں کسی منصوبے کے تحت ہندوؤں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ’بنگلہ دیش میں مسلمان انتہا پسندوں‘ نے ایک مندر کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔
تاہم بی بی سی ویریفائی کو معلوم ہوا ہے کہ چٹاگانگ میں واقع نوگرہ مندر کو کوِئی نقصان نہیں پہنچا اور آگ لگنے کا واقعہ دراصل قریب ہی واقع عوامی لیگ کے دفتر میں پیش آیا تھا۔
بی بی سی کی جانب سے حاصل کی جانے والی تصاویر میں ایسے پوسٹرز دیکھ جا سکتے ہیں جن پر عوامی لیگ کے اراکین کی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔
ان تمام پوسٹس کو شیئر کرنے والے بہت سارے اکاؤنٹس وہ ہیں جو کہ بظاہر ہندو قوم پرستی کی حمایت کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں ڈس انفارمیشن اور نفرت انگیزی پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر سعید الزمان کہتے ہیں کہ ملک میں مذہبی تقسیم دہائیوں سے چلی آ رہی ہےان انفلوئنسرز کی جانب سے ڈر اور خوف پھیلانے سے صورتحال مزید کشیدہ ہو رہی ہے۔‘
ڈِس افارمیشن کا عالمی پھیلاؤ
ایسی متعدد پوسٹس جن میں ہندوؤں پر مسلمانوں کے حملوں کے جھوٹے دعوے کیے گئے ان اکاؤنٹس سے بھی شیئر کی گئی ہیں جو بنگلہ دیش اور انڈیا سے ہزاروں کلومیٹر دور سے چلائے جا رہے ہیں۔
برطانیہ میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایکٹیوسٹ ٹومی روبنسن حالیہ دنوں میں ہدفِ تنقید بنے ہوئے تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے برطانیہ میں حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے دوران لوگوں کو اُکسانے کی کوشش کی۔
بنگلہ دیش کے حوالے سے بھی ٹومی روبنسن سوشل میڈیا پر غیر تصدیق شدہ ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے نظر آئے اور دعویٰ کرتے رہے کہ ’ہندوؤں کی نسل کشی‘ کی جا رہی ہے۔
گذشتہ چند ہفتوں میں بنگلہ دیش میں کیا ہوا یہ جاننا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ حقیقتاً ملک میں بہت سارے حملے ہوئے ہیں لیکن یہ جاننا مشکل ہے کہ ان کے پیچھے وجوہات سیاسی تھیں یا مذہبی۔
بنگلہ دیش کے ایک ہندو رہائشی کہتے ہیں کہ ملک میں ہندو اقلیت کو سیکولر عوامی لیگ کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے لیے کام کرنے والے فیکٹ چیکر قدرالدین شیشیر کہتے ہیں کہ ملک میں ہندوؤں کے املاک پر متعدد حملے ہوئے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انڈین اکاؤنٹس ان سیاسی حملوں کو مذہبی حملے قرار دے کر پھیلا رہے ہیں۔‘
بنگلہ دیش میں ہندو بدھسٹ یونیٹی کونسل کے مطابق 5 اگست کے بعد ملک میں اب تک پانچ ہندو ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے دو افراد کا تعلق عوامی لیگ سے تھا۔
تاہم اے ایف پی کے مطابق گذشتہ چند ہفتوں میں ملک میں 50 سے زیادہ ہندو شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
جب ہندوؤں کے املاک پر حملوں کے جھوٹے دعوے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تو مسلمان مظاہرین نے مندروں کی حفاظت کرنے کا فیصلہ کیا۔چٹاگانگ میں ایسے ہی ایک طالب علم ’معین کہتے ہیں کہ ان وائرل پوسٹس کا مقصد ’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع پیدا کرنا تھا لیکن ہم اس جھانسے میں نہیں آئیں گے۔‘,
(جیکی ویکفیلڈ اور شروتی مینن کی رپورٹ،بشکریہ بی بی سی)