نئی دہلی: بھارت سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی روکنے کے لیے 11 سماجی کارکن بدھ (4 اگست 2024) کو سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ ان کارکنوں نے وکیل پرشانت بھوشن کے توسط سے عرضی داخل کی ہے۔ درخواست گزاروں نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل فلسطین میں نسل کشی کر رہا ہے لیکن بھارتی حکومت نجی کمپنیوں کو اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی سے نہیں روک رہی۔ عدالت حکومت سے اسرائیل کو فوجی سامان کی سپلائی روکنے کا کہے۔
*بھارتی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کیے جائیں۔
اے بی پی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مرکزی حکومت کو اسرائیل کو اسلحہ اور دیگر فوجی ساز و سامان برآمد کرنے والی بھارتی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے اور نئے لائسنس نہ دینے کی ہدایت کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست میں کہا گیا کہ گزشتہ سال غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے پریمیئر ایکسپلوسیوز لمیٹڈ کو کم از کم تین بار فوجی سازوسامان برآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔درخواست گزاروں میں ہرش مندر، جین ڈریز، نکھل ڈے، اشوک شرما سمیت 11 لوگ شامل ہیں۔ عام طور پر عدالت خارجہ پالیسی سے متعلق معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ ایسی صورت حال میں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا عدالت اس کی سماعت اس بنیاد پر کرے گی کہ درخواست گزاروں کا حوالہ دیا گیا ہے کہ حکومت ہند بین الاقوامی انسداد نسل کشی کنونشن کی پابند ہے۔
*درخواست میں کیا کہا گیا؟
وزارت دفاع کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں فریق بنایا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’بھارت مختلف بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کا پابند ہے جو ہندوستان کو پابند کرتے ہیں کہ وہ جنگی جرائم کے مرتکب ممالک کو فوجی ہتھیار فراہم نہ کرے‘‘۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔”درخواست میں کہا گیا کہ وزارت دفاع کے ماتحت کمپنیوں کی طرف سے اسرائیل کو فوجی سازوسامان اور ہتھیاروں کی فراہمی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون کے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس عرضی میں مرکزی وزارت دفاع کو فریق بنایا گیا ہے۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سپریم کورٹ اس عرضی پر سماعت کرتی ہے یا نہیں، یا پھر عرضی سماعت کے لیے منظور کی جاتی ہے تو سماعت کی کارروائی کب سے شروع ہوتی ہے۔