اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ میں جنگ کا آغاز کیا تھا اور اس جنگ میں اسرائیل کی جانب سے اُس اسلحے کا استعمال کیا گیا جو زیادہ تر یا تو امریکہ کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا یا امریکہ کی مالی اعانت سے خریدا گیا تھا۔
اسرائیل کے دیگر مغربی اتحادی ممالک نے بھی اسے (اسرائیل) ایک اور طاقتور ہتھیار فراہم کیا۔۔۔ اور یہ ہتھیار تھا اسرائیل کی اس جنگ میں مکمل اخلاقی حمایت اور یکجہتی کا۔
مغربی اتحادیوں کی جانب سے اسرائیل کو یہ حمایت اُن 1200 افراد کی ہلاکتوں پر غم و غصے کے اظہار کے طور پر دی گئی جن میں اکثریت اسرائیلی شہریوں کی تھی جو حماس کے حملے کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔تینوں ممالک نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنی نئی فوجی کارروائی کو فوراً روکے، یعنی وہ نیا فوجی آپریشن جس کا آغاز حال ہی میں ہوا ہے اور جس کے بارے میں وزیرِاعظم نتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس کی مدد سے حماس کا خاتمہ ہو گا، حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرایا جائے گا اور پورے غزہ کو براہِ راست اسرائیلی فوجی کنٹرول میں لایا جائے گا۔
مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کو مغربی اتحادیوں کی طرف سے میسر یہ اخلاقی حمایت ختم ہو چکی ہے، کم از کم فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کے حوالے سے تو یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے۔ اِن تینوں ممالک نے اسرائیل کے اُس طریقہِ کار کی سب سے سخت مذمت کی ہے جس کے تحت وہ غزہ میں جنگ لڑ رہا ہےان ممالک نے حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ دہراتے ہوئے یاد دلایا کہ سات اکتوبر کے ’سفاکانہ حملے‘ کے بعد انھوں نے اسرائیل کے حقِ دفاع کو تسلیم کیا تھا، ’لیکن اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ مکمل طور پر غیر متناسب ہے۔‘
نتن یاہو پر عالمی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کریں، خاص طور پر ایک معتبر عالمی ادارے کے اس سروے کے بعد جس میں غزہ میں قحط کے خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے۔نتن یاہو کی جانب سے ہچکچاہٹ کے ساتھ غزہ میں خوراک کی محدود سپلائی کی اجازت دینے کے فیصلے کی اسرائیل میں موجود اُن کے انتہائی قوم پرست اتحادی شراکت داروں نے مذمت کی ہے۔
ناصرف اسرائیل کے روایتی مخالفین بلکہ اس کے یورپی اتحادی بھی اب اپنی زبان کو سخت کر رہے ہیں۔ تین ممالک کی جانب سے اسرائیل کی جانب سے جارحیت کے خاتمے کے مطالبے کا سامنے آنے والا بیان اسرائیل پر غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک کی سب سے سخت تنقید ہے۔فرانس ان 148 دیگر ممالک کے بلاک میں شامل ہونے پر غور کر رہا ہے جنھوں نے جون کے شروع میں نیویارک میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں ایسا کیا ہے۔ برطانیہ نے بھی فرانس کے ساتھ فلسطینیوں کو تسلیم کیے جانے سے متعلق بات چیت کی ہے۔
اسرائیل نے سخت ردعمل دیتے ہوئے ان ممالک کو کہا ہے کہ ان کا بیان حماس کی فتح کا اظہار ہے۔ لیکن فرانس، کینیڈا اور برطانیہ کی جانب سے دیے گئے مشترکہ بیان میں جو لہجہ اختیار کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل ان ممالک پر دباؤ ڈالنے کی صلاحیت کھو رہا ہے۔