تحریر:کلیم الحفیظ- نئی دہلی
دنیا دار الاسباب ہے۔ یہاں کے نتیجے کا انحصار ہمارے اعمال پر زیادہ ہے اور عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ہم مسلمان عمل سے زیادہ نصیب اور تقدیر کا بہانہ کرکے بے عملی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ہر نماز میں اللہ سے سب کچھ مانگ کر دل کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ دعائیں بھی عجیب و غریب کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ہم دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ جو مانگا وہ بھی عطا فرما جو مانگنے سے رہ گیا وہ عطا فرما، جو ہمارے بزرگوں نے مانگا وہ بھی عطا فرما، ہم نے کبھی اپنی دعاؤں کا جائزہ بھی نہیں لیا کہ کتنی پوری ہوئیں اور کتنی رہ گئیں،اور پوری نہیں ہوئیں تو کیوں نہیں ہوئیں، پوری نہ ہونے کا بھی ہمیں ایک حل مل گیا۔ جو دعائیں دنیا میں پوری نہیں ہوں گی ان کا اجر آخرت میں مل جائے گا۔ مجھے ان میں سے ہر بات سے اتفاق ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ قادر مطلق ہے وہ سب کچھ عطا کرسکتا ہے۔ مگر ہمیں اپنا ظرف بھی دیکھنا چاہیے اور جس سے ہم مانگ رہے ہیں اس سے اپنے رشتے کی نوعیت اور کیفیت بھی دیکھنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ دعا سے پہلے کے مراحل سے بھی گزرنا چاہیے۔اللہ سے ہمارا رشتہ دوستانہ ہے یا حریفانہ۔اخلاص پر مبنی ہے یا نفاق پر،ہم جو مانگ رہے ہیں اس کے تقاضے بھی ہم نے پورے کیے یا نہیں۔ایک طالب علم نہ اسکول جائے،نہ کتاب کھولے اور کلکٹر بننے کی دعا کرے تو یہ دعا نہیں اللہ کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے،ہم میدان جنگ کا رخ بھی نہ کریں،ہمارے جسم پر کوئی خراش بھی نہ ائے اور دعا مانگی جائے فتح کی تو اس دعا کی تکمیل کیسے ممکن ہے۔ خدا کا نام لے کر شیطان کی تابعداری کی جائے اور خدا سے اجر کی امید رکھی جائے تو یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ بھی کتنا عجیب معاملہ ہے جس قوم کے دین میں ایمان کے بعد عمل پر زور دیا گیا ہے وہی قوم سب سے زیادہ بے عملی کا شکار ہے۔ جب کہ دوسری قوم جس کے یہاں اندھ وشواس ہی سب کچھ ہے وہ عمل کے میدان میں سب سے آگے ہے۔ آج میرا مقصد آپ کے سامنے اس تنظیم کا ہلکا سا خاکہ پیش کرنا ہے جس سے ہمارا مقابلہ ہے تاکہ ہم حقیقت سے روبرو ہو سکیں اور مقابلے کی کچھ تیاری کر سکیں۔ذیل میں آر ایس ایس کے متعلق کچھ اعداد شمار درج کیے جارہے ہیں۔ اپ ان کو ملاحظہ کیجیے اور پھر اپنی کارکردگی دیکھیے۔ یاد رکھیے محض قنوت نازلہ پڑھنے لینے سے یا بد دعا کردینے سے مقابل کو مات نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے نبیوں تک کو میدان عمل میں آنا پڑا ہے۔
آر ایس ایس جس کا قیام 1925میں ہوا۔ جس کا مقصد ہے کہ بھارت کو ہندو راشٹر بنایا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کے ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اپنانے، اس کی تبلیغ کرنے، اس کے مطابق جمہوری طریقے پر ہندوستان کو بنانے کی آزادی ہے۔ آر ایس ایس نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ 96سال پر محیط منظم کوششوں کا نیتجہ آج سب کے سامنے ہے۔ آج صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ، وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، لوک سبھا کے اسپیکر، نائب اسپیکر، 18وزرائے اعلیٰ، 29 ریاستوں کے گورنر، 1460 ممبران اسمبلی، 283ممبران پارلیمنٹ، 58راجیہ سبھا کے ارکان، ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں گرام پنچایت اور سینکڑوں نگر پالیکائیں ہیں جہاں پر ان کا قبضہ ہے۔ تنظیمی طور پر ایک لاکھ شا کھائیں، کروڑ وں سویم سیوک، لاکھوں بھارتیہ مزدور سنگھ سے وابستہ افراد، بیس لا کھ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے نوجوان، آٹھ سے دس کروڑ کروڑ بی جے پی کے وابستگان، نو ہزار ہمہ وقتی ذمہ داران، لاکھوں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے بجرنگی، ہیں جو دن رات اپنے مقصد کی جانب گامزن ہیں، ایک لاکھ کے قریب سرسوتی ششومندر اور کالج ہیں جن میں پانچ لاکھ سے زیادہ آچاریہ اور ایک کروڑ سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ سینکڑوںپبلیکشنز ہیں۔ جن سے ہندو تہذیب پر مبنی لٹریچر مختلف زبانوں میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔
سماج کے ہر طبقے کے لیے اس نے سوسائٹی اور ٹرسٹ بنائے ہیں۔ علماء اور مسلمانوں کے لیے بھی اس نے اپنی انجمنیں قائم کی ہیں۔ کچھ اداروں کے نام آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
ون واسی کلیان آشرم، سنسکار بھارتی، وگیان بھارتی، لگھو ادیوگ بھارتی، سیوا سہیوگ، سیوا انٹرنیشنل، راشٹریہ دیویکا سمیتی، آروگیہ بھارتی، سماجک سمرستا منچ، شری رام جنم بھومی نیاس، دین دیال شودھ سنستھان، بھارتیہ وچار سادھنا، سنسکرت بھارتی، بھارت وکاس پریشد، جموں کشمیر اسٹڈی سرکل، درشٹی سنستھان، ہندو ہیلپ لائن، ہندو سویم سیوک سنگھ، ہندو منانی، اکھل بھارتیہ ساہتیہ پریشد، بھارتیہ کسان سنگھ، سوامی وویکانند کیندر، اکھل بھارتیہ گرام پنچایت، وشو سمواد کیندر، جن کلیان رکت پیری، اتہاس سنکلن سمیتی،ان میں سے ہر ادارہ اپنی الگ دنیا رکھتا ہے۔ آپ ان کے ناموں سے ہی ان کے دائرہ کار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ہر زبان اور ہر عمر کے لیے اخبارات و رسائل شائع ہوتے ہیں۔ انقلاب جیسا اردو کا اخبار بھی سنگھ کا ہی ہے۔ پانچ جنیہ، آرگنائزر، ہندوستان سماچار، ترون بھارت جیسے اخبارات سنگھ کے اداروں سے شائع ہوتے ہیں۔امر اجالا،دینک جاگرن بھی ان کے ہم خیال افراد نکالتے ہیں۔الکٹرانک میڈیا میں درجنوں چینل ہیں جن پر دھیان گیان کے نام پر گیتا اور رامائن کا پاٹھ ہوتا ہے، کتنے ہی خبریہ چینل ہیں جن کا کام ہی دن رات مودی جی کی شان میں قصیدہ خوانی ہے۔
ان اداروں اور سنگٹھنوں کے علاوہ بہت سی ایسی تنطیمیں ہیں جو باقاعدہ ار ایس ایس سے وابستہ نہیں ہیں لیکن اس کے مقصد میں معاون ہیں۔ مثلاً گائتری پریوار کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے جس کے بارے میں آپ گوگل پر سرچ کرسکتے ہیں۔ رادھا سوامی نیاس ہے جس کے آشرم آپ کو ہر جگہ مل جائیں گے۔ بابا رام دیو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
یہ کام اور تیاریاں ان لوگوں کی ہیں جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ وہ جھنم کا ایندھن بنیں گے۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ انھوں نے ہماری دنیا ہی جھنم بنانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ خدا ہے ہمارا کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ لیکن اسپین،سمر قند اور بخارا کی تاریخ بھول جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی شکست سنگھ کی جڑیں ہلا دے گی۔ لیکن بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ جیتیں گے وہی کون سے ہندو راشٹر کے مخالف ہیں۔ ان کی آرزوں کا محل بھی رام مندر ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی درجنوں آل انڈیا جماعتیں ہیں۔ لاکھوں مساجد اور مدارس ہیں، جس میں لاکھوں اساتذہ اور معلمات ہیں، کروڑوں طلبہ ہیں۔ اخبارات و رسائل بھی ہیں، ان کے ساہتیہ کے مقابلے شعراء اور ادیبوں کی بھرمار ہے۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ان اداروں اور جماعتوں کے مقاصد میں بعد المشرقین ہے۔ ایک تنظیم سے وابستہ ممبران بھی ایک مقصد سے اتفاق نہیں رکھتے۔ اسلام جیسا فلاح انسانیت کا دین رکھنے والے اپنا مقصد زندگی متعین کرنے میں ہی ایک دوسرے سے دست بگریباں ہیں۔ اگر ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی درکار ہے تو ہم میں سے ہر شخص کو اپنا کوئی نہ کوئی ایسا ہدف ضرور متعین کرنا چاہیے جو ہمیں ہماری منزل کی طرف لے جانے میں معاون ہو۔ ہماری منزل اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا امن و سلامتی اور عدل و انصاف کا گہوارہ بن جائے۔ لیکن اس کے لیے جذبات کے ساتھ عقل و دانش کا ہونا ضروری ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک سیاسی قوت بنیں سنگھ نے بھی اپنے تمام کام سیوا اور سماج کے نام پر کیے ہیں مگر مقصد سیاسی طاقت کا حصول ہے اسی طرح مسلم امت کے سماجی، رفاہی، فلاحی اور مذہبی اداروں کو اپنی مشترکہ سیاسی جماعت پر اتفاق کرنا چاہیے۔ سیاسی قوت کی پشت پناہی کے بغیر قوموں کی ترقی نا ممکن ہے۔ کسی ایک قائد کی قیادت میں رہ کر ہی حکومت میں شرکت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ میری یہ بھی رائے ہے کہ آپ لوگ ہری دوار رشی کیش آپنے قرب و جوار میں موجود آشرموں کی سیاحت ضرور کریں تاکہ آپ کی آنکھیں مقابل کی تیاریوں کا مشاہدہ کرسکیں۔ آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا تنظیموں کا مطالعہ و مشاہدہ ہمیں حرکت و عمل پر آمادہ کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔
اس جہان آب و گل کا ہر تماشا دیکھ لے
ازشیں اغیار کی اور اپنی تیاری بھی دیکھ