سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کے خلاف اس سال شروع ہونے والی داخلی تفتیشی کارروائی کو منسوخ کر دیا ہے۔ کیس سے منسلک ذرائع نے بتایا ہے کہ راجیہ سبھا نے جسٹس شیکھر یادو کی تحقیقات کے سلسلے میں سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے، جو مسلمانوں پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے اور ‘ملک کو اکثریت کے مطابق چلنا چاہیے’ جیسے بیانات دینے کے تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ راجیہ سبھا کو اس معاملے کی تحقیقات کے خصوصی حقوق حاصل ہیں۔
واضح رہے کہ جسٹس شیکھر یادو نے گزشتہ سال دسمبر میں وشو ہندو پریشد کے ایک پروگرام میں مسلمانوں پر متنازعہ بیان دیا تھا۔معلومات کے مطابق سپریم کورٹ شیکھر کمار یادو کی متنازع تقریر کی اندرون خانہ جانچ شروع کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس معاملے سے واقف لوگوں نے تصدیق کی کہ اس وقت کے سی جے آئی سنجیو کھنہ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے جج کے طرز عمل کی تحقیقات کا عمل شروع کیا تھا۔ تاہم مارچ میں راجیہ سبھا سکریٹریٹ سے ایک خط موصول ہونے کے بعد یہ جانچ روک دی گئی۔
راجیہ سبھا کی طرف سے بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی کارروائی کا آئینی حق مکمل طور پر راجیہ سبھا کے چیئرمین کے پاس ہے اور اس لیے صرف پارلیمنٹ اور صدر ہی اس پر فیصلہ لیں گے۔ اس خط کے بعد عدلیہ نے داخلی انکوائری شروع کرنے کا منصوبہ منسوخ کر دیا۔
•••جگدیپ دھنکھڑ نے ہدایات دی تھیں۔
اس سے قبل فروری میں راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ نے بتایا تھا کہ انہیں 13 دسمبر 2024 کو ایک نوٹس ملا تھا جس پر راجیہ سبھا کے 55 اراکین کے دستخط تھے۔ اس میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کو آئین کے آرٹیکل 124 (4) کے تحت عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ موضوع صرف راجیہ سبھا کے چیئرمین کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور اس کا حتمی فیصلہ پارلیمنٹ اور صدر جمہوریہ کریں گے۔ راجیہ سبھا اسپیکر نے ہدایت دی تھی کہ یہ معلومات سپریم کورٹ کو دی جائیں۔