تحریر:کلیم الحفیظ-نئی دہلی
اس مضمون کو لکھنے کا سبب ایک واقعہ بنا۔ہوا یہ کہ دہلی کی ایک جھگی بستی کا رہنے والا ایک مسلم لڑکا جس کی عمر 18سال رہی ہوگی ،تہاڑ جیل میں پولس کی مار کی تاب نہ لاکر چل بسا۔اس حادثے پر اس بستی میں ہنگامہ ہوا۔سڑک پر جنازہ رکھ کر احتجاج ہوا۔ہزاروں لوگوں نے سڑک جام کردی۔پولس کی یقین دہانی پر میت کی تدفین عمل میں آئی ۔اس بستی کے اطراف میں بڑی بڑی عمارتیں ہیں،ان میں بعض امیر مسلمانوں کی ہیں ۔یہ بستی قلب دہلی میں واقع ہے ۔اکثر جھگی بستیاں کسی گندے نالے یاشہر کے کنارے کوڑے کے ڈھیر کے آس پاس ہیں مگر یہ بستی لب سڑک ہے ۔اس بستی میں بیشتر مسلمان ہی رہتے ہیں،جن کا تعلق بنگال اور بہار سے ہے ۔یہاں جو مسلمان رہتے ہیں ان میں سے ایک صاحب سے میری ملاقات ہوئی ،میں نے انھیں بتایا کہ میں جیل میں مرجانے والے نوجوان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے آیا تھا اور میں نے اہل خانہ کو اپنی مدد کا یقین دلایا ہے اور میں خاطیوں کے خلاف کارروائی بھی کروں گا۔انھوں نے بڑی حیرت سے کہا بھئی مجھے تو معلوم نہیں ،یہ تو آپ سے سن رہا ہوں ۔حالانکہ حادثے کو کئی دن گزر چکے تھے۔باتوں باتوں میں موصوف نے کہا کہ دن بھرباہر رہنا ہوتا ہے۔میں تہجد پڑھ کر فلاں مسجد میں فجر پڑھتا ہوں کیوں کہ وہاں اول وقت ہوتی ہے ،ظہر،عصر عام طور پر دفتر میں ہوجاتی ہے اور مغرب فلاں مسجد میں اور عشاء فلاں جگہ پر پڑھتا ہوں،موصوف ایک بڑی کمپنی کے مالک ہیں اور بلا مبالغہ ارب پتی ہوں گے۔اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ دہلی کے لوگ دن بھر مصروف رہتے ہیں۔اس میں بھی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ دہلی میں ایک ہی فلیٹ میں رہنے والے ایک دوسرے سے شناسا نہیں ہوتے،بلکہ ہونا بھی نہیں چاہتے۔ہونا بھی نہیں چاہتے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میرے ایک دوست نے بتایا کہ وہ جس بلڈنگ میں رہتے ہیں ۔اس میں چار فلور ہیں اورہر فلور پر دو دو فلیٹ ہیں۔میں جب اپنے فلیٹ سے آتا جاتا تو باقی لوگوں کو جو اس بلڈنگ میں رہتے ہیں ان کو حسب موقع سلام کرلیتا۔ایک صاحب سے تقریباً روز ہی سلام دعا ہوتی ۔ایک دن وہ کہنے لگے کہ آپ سلام کیوں کرتے ہیں؟اس سوال پر میں نے کہا ،جناب سلام کرنا ثواب ہے ،اس سے شناسائی پیدا ہوتی ہے ،ہم ایک ہی بلڈنگ میں رہتے ہیں ،ہمیں ایک دوسرے سے واقف ہونا چاہئے ،انھوں نے برا سا منھ بنا کر کہا نہیں، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔آپ مجھے سلام نہ کیا کریں۔
آپ ان دونوں واقعات کو دیکھیے اور پھر اسلام کی تعلیمات،رسول اکرم ﷺ کے اسوہ،خیر امت ہونے کے تقاضے،عام انسانی اخلاق کی روشنی میں اپنا جائزہ لیجیے۔ہمارے یہاں کتنے ہی تہجد گزاراور نوافل کے پابند حضرات ہیں ،اللہ نے جن کو مختلف صلاحیتوں اور نعمتوں سے نوازا ہے ،کسی کو بیش بہا مال دیا ہے،کسی کو علم عطا کیا ہے ،کسی کو فرصت کے لمحات بخشے ہیں۔لیکن ہم ان نعمتوں کا صحیح سے استعمال نہیں کرتے۔اس لیے کسی بھی صورت ہماری حالت نہیں بدلتی۔ہمارے یہاں دین کا محدود تصور اس قدر عام ہوگیا ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلانا،جھگی میں رہنے والوں کی تعلیم و تربیت کا خیال کرنا،اپنے آس پاس کے افراد کے مسائل کو جاننا اور سمجھنا دین کا عمل ہی نہیں سمجھا جاتا۔ہماری سائونڈ پروف گاڑیوں اور محلوں تک غریبوں کی آہ بکا نہیں پہنچتی۔ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ اپنے جیسے ہی نہیں اپنے ہم مذہب انسانوں تک کو خاطر میں نہیں لاتے۔دین کے محدو دتصور کی بدولت قرآن کی افادیت صرف مُردوں کو بخشوانے تک محدود کردی گئی ہے ۔سیرت کا مطلب محفل میلاد منعقد کرنا ہے،سنت کے نام پرچند نوافل ہیں۔
جانوروں کے سماج میں بھی اتنی بے حسی نہیں ہے جتنی اس وقت ہم میٹروپولیٹن شہروں میں دیکھتے ہیں۔ایک بندر کو مار دیجیے ،اس علاقے کے تمام بندر آجائیں گے اور آسمان سر پر اٹھالیں گے ،گلی کا ایک کتا بھونکتا ہے تو آس پاس کے سارے کتے اس کی آواز میں آواز ملادیتے ہیں۔غیر تو غیر ہیں ان کا کیا شکوہ کرنا ۔افسوس جب ہوتا ہے جب ہم ایک خدا رسول کا نام لینے والوں میں یہ بے حسی دیکھتے ہیں۔جس دین میں غریبوں ،مسکینوں اور یتیموں کے حقوق بیان کیے گئے ہوں،جس دین میں مساکین کو کھانا نہ کھلانے پر جھنم کی وعیدہو،جس میں رسول خودمکہ و مدینہ کے پسماندہ علاقوں میں جاکر حال احوال دریافت کرتا ہو،جس کے یہاں مستقل اصحاب صفہ قیام کرتے ہوں،اس نبی کی امت کے اصحاب ِنعمت جھگیوں میں جانے کو کسر شان سمجھتے ہیں۔معاف کیجیے ہماری بے حسی نے اور ہمارے ناقص علم نے ہمیں دنیاوی زندگی میں پسماندہ بنادیا ہے ،آخرت کا حال تو اللہ ہی جانے۔اجتماعی نظم زکاۃ کے نہ ہونے کے سبب اربوں روپے سالانہ خرچ ہونے کے باوجود غربت اور غریبوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ابھی تک مساجد کے دروازوں پر لکھا ہوتا تھا کہ یہاں وہابیوں یا غیر عقیدہ لوگوں کا آنا منع ہے ۔آج فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک بارات میں یہ اعلان ہورہا تھا کہ یہ اہل سنت والجماعت کے نوجوان کی بارات ہے اس میں وہابی نہ آئیں ،اگر کوئی آئے گا تو اسے خوار ہوکر نکال دیا جائے گا۔ حکومت ہمیں مسلمان سمجھتی ہے اور ہم آپس میں ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے۔امت کے اخلاقی حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ ابھی ظلم کی حکومت مزید رہے گی اور مسلمانوں کی مصیبت کا دور طویل ہوگا۔
آخریہ کب تک چلے گا؟یہ امت کب بیدار ہوگی؟ہماری ظلمت شب کی صبح کب آئے گی؟ہندوستانی مسلمان حکومت کی بے توجہی،زعفرانیوں کی سازشوں اوراپنوں کی بے حسی کا شکار ہیں۔مسائل کا ایک انبار ہے اور حل ہونے کا کوئی راستا دکھائی نہیں دیتا۔اگرچے ہر گام پر ایک رہبر ہے،اس کے باوجود کوئی رہنما نہیں ہے۔ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے۔افرادی قوت بھی ہے،اہل مال بھی ہیں،اہل علم بھی ہیں،ادارے اور انجمنیں بھی ہیں،ہر شخص فکرمند بھی ہے۔بس ضرورت ہے کہ کوئی ایسا میکانزم بنایا جائے کہ ا ن وسائل کا صحیح سے استعمال ہو۔یہ میکانزم عالمی اور ملکی سطح پر نہ سہی اپنے گائوں اور محلوں کی حد تک ہی بنالیا جائے۔دوچار اہل نعمت مل کر کسی غریب محلے اور ان پڑھ محلے کو گود لیں اور اپنی نگرانی میں وہاں تعلیم ،صحت اور روزگار کے مواقع پیدا کریں۔کیوں کہ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اپنے یہاں سے اخلاص اور امانت دونوں ہی غائب ہیں،اس لیے اپنا پیسہ خود ہی خرچ کریں تو بہتر ہوگا۔
میری اپنی قوم کے لوگوں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ خدا کے واسطے جو جہاں ہے اور جو کچھ کرسکتا ہے وہ اپنے آس پاس کرے۔شیشے کے محلوں میں رہنے والے بھی ذرا اپنے آس پاس کی غریب بستی کا ہفتے میں ایک دن دورہ کرلیا کریں اس سے ان کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا اور غریبوں کی ضروریات پوری ہوں گی۔غریبوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی حد تک ہی ہاتھ پھیلائیں۔خود کو کسی کام کے لائق بنائیں۔ہمارے غریب بھی ماشاء اللہ ہیں ،سماج کی فضول رسمیں انھیں کے دم سے زندہ ہیں،عرس،میلے اور قوالیاں ان کے طفیل ہیں ،ورنہ کسی مالدار کو کہاں فرصت ہے کہ وہ فضول کی رسموں میں وقت برباد کرے،اس کے پاس اپنے والدین کی خیریت جاننے اور اپنے قریبی اعزہ کے جنازے تک میں جانے کی فرصت نہیں ہے۔
سنا ہے ڈوب گئی ہے بے حسی کے دریا میں
وہ قوم جس کو جہاں کا امیر ہونا تھا
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)