بنگلہ دیش میں انقلاب اور شیخ حسینہ کے تختہ پلٹ کو ابھی تک ان ذہنوں نے قبول نہیں کیا جو ان کو مافوق الفطرت اور ناقابل تسخیر سمجھتے تھے- وہیں یہ عاقبت نااندیش بھارت اور بنگلہ دیش کے دیرینہ تعلقات کو خراب کرنے کے لئے موجودہ حکومت اور اس میں شریک عناصر کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے تمام امیدوں کو خاک میں ملا رہے ہیں-اس کے علاوہ صورت حال کو خاص زاویہ سے دیکھنے اور اس پر اصرار کے رویہ نے بھارت اور بنگلہ دیش کو ایک دوسرے سے دور کرنے میں ہی مدد کی ہے
جب کہیں انقلاب آتا ہے تو اس میں شرپسند، فسادی لوگ بھی دراندازی کرلیتے ہیں اور لوٹ مار قتل وغارت گری کرتے ہیں جیسا کہ بنگلہ دیش کے پی ایم ہاؤس میں گھسی بھیڑ وہاں کا سامان اٹھا لائی شیخ مجیب کے مجسموں کو توڑ دیا،عوامی لیگ کے حامیوں کے گھروں میں آگ لگادی ،متعدد زندہ جل گئے کئی عوامی لیگ کے رہنماؤں کی لاشیں برآمد ہوئیں ۔یہ کام انجام دینے والے وہ بھی رہے ہوں گے جن کو عوامی لیگ کی سرکار میں ستایا اور اذیتوں سے دوچار کیا ہوگا۔ وہ بھی ہوں گے جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے ہیں وہ یہ کام مذہب،عقیدہ،فرقہ ،نسل ،علاقہ کی بنیاد پر نہیں کرتے -چنانچہ انقلاب کی چکی میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتے ہیں ۔شیخ حسینہ کی پولیس نے اس انقلاب کے ہیرو ناہید آسلام کو گھر سے اٹھا کر پہلے ٹارچر کیا پھر آدھ مرا کرکے آنکھوں پر پٹی باندھ کر سنسان سڑک پر بے ہوشی کی حالت میں پھینک دیاتھا وہ لڑکا آج عبوری حکومت کا اہم رکن ہے مگر اس نے تاحال کوئی انتقامی کارروائی کا عندیہ تک نہیں دیا-اس کی باتوں میں تحمل ہے
شیخ حسینہ کے فرار ہونے کے بعد پھیلے تشدد میں بلاشبہ بعض واقعات میں ہندو اقلیت کو نشانہ بنایا گیا،کئی معروف ہندو شخصیات کو زدوکوب کیا جس میں ایک ہندو گلوکار قتل بھی شامل ہے ،گھروں کو نذرآتش کیا گیا ۔کچھ جگہ مندروں میں توڑپھوڑ ہوئی مگر یہ چند واقعات ہیں ۔بھارت سرکار نے پارلیمنٹ میں اس کا اشارہ کیا اور کہا کہ سرکار کی اس پر نظر ہے ،وزیراعظم نے ملک کے جذبات کو عبوری حکومت کے سربراہ تک پہنچایا ،حتی کہ لال قلعہ کی فصیل سے بھی بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مظالم پر تشویش ظاہر کی ،محمد یونس نے مودی سے فون پر بات کی اور ہر تحفظ کا یقین دلایا ۔اب یہ ثابت ہورہا ہے کہ ہندوؤں پر تشدد کے واقعات کی بڑی تعداد فیک نیوز،ڈاکٹرڈ ویڈیوز،اور فرضی خبروں پر مبنی تھے-بلا شبہ ہر ذمہ دار سرکار اپنی اقلیتوں کی فکر کرتی ہےجیسابھارت سرکار نے کیا -لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ پورے ملک میں یہی ہورہا ہے حالانکہ اس طرح کا ایک واقعہ بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے-بھارت میں کئی مرتبہ بعض ہندو جلوسوں کے موقع پر مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرانے ،پتھر بازی اور توڑپھوڑ کے واقعات کی خبریں آتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ پورے فرقہ پر انگلی اٹھائی جائے اوراس کو نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا جائے شرپسند ،فسادی ہر کمیونٹی میں ہر جگہ ہوتے ہیں ۔کشیدگی بھرے ماحول میں بہت سے ہندوؤں کو مسجد کی حفاظت اور بہت سے مسلمانوں کو مندر کا تحفظ کرتے ہوئے دیکھے جانے کی سکوںن دینے والی خبریں بھی آتی رہتی ہیں ۔بنگلہ دیش سے اگر مندروں پر حملے کی تشویشناک خبریں آئیں ہیں تو ایسی تصاویر اور خبریں بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن میں مسلم پڑوسی اور طلبا مندروں پر پہرا دے رہے ہیں
اس وقت ہمارے مین اسٹریم میڈیا خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا آگ لگی ہوئی ہے ، ہیجان برپا ہے ۔وہ ہمارے امن پسند معاشرے میں آگ لگادینا چاہتا ہے ۔اشتعال انگیز تبصروں اور غیر تصدیق شدہ ویڈیوز،خبروں کی بھرمار ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ بنگلہ دیشیوں اور عبوری سرکار کےپاس اس کےعلاوہ کوئی کام نہیں ہے اور نہ آگے ہوگا کہ بس وہ ہندو اقلیت کے خلاف جبر کرے اور ان کا ناطقہ بند کردے۔ اس کے بد اثرات ملک کے مختلف حصوں میں نظر آئے جہاں ہندستانی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی کہہ کر مارا گیا ،ان پر حملے کئے گئے اور اب بھی نفرت کی جگالی کی جارہی ہے جس کا نشانہ بھارتی مسلمان ہیں۔بنگلہ دیش کے بہانے مسلمانوں کے خلاف بیانیہ تیار کیا جارہا ہے-
یہی ہیجان افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد دیکھا گیا طالبان سرکار کو ہر وہ گالی دی گئی جو مہذب دنیا میں دی جاسکتی ہے نفرت کی ہر وہ زبان میں اسٹریم میڈیا کے بڑے حصے نے استعمال کی جس کی گنجائش بھی نہیں تھی-مگر اسی سرکار سے بھارت نے پیاز امپورٹ کی اور اس کو گیہوں بھجوایا۔بالواسطہ روابط قائم کئے-بھارت میں شکر ہے فرقہ پرستوں کی اشتعال انگیز ان کوششوں کے باوجود ہر طرف چین وسکون ہے حالیہ انتخابات کے نتائج نے واضح کردیا کہ عوام نفرتی باتوں کو پسند نہیں کرتے ۔ان کی رگوں میں نفرت وتشد نہیں پرامن بقائے باہم کا خون دوڑتا ہے مگر پھر بھی یہ چنٹو اپنی اوچھی حرکتوں سے باز نہیں آتے ۔ٹی آرپی کے کھیل میں ہند بنگلہ دیش تعلقات او ہندو مسلم بھائی چارے کو داؤ پر لگا رہے ہیں بعض چینلوں نے تو تمام حدیں پار کردی ہیں ۔مان لیجئے بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی آئندہ سرکار کا حصہ ہوں تو کیا بھارت اس سرکار سے بات نہیں کرے گا؟اس کی ہر حد شیخ حسینہ پر ختم ہوگئی ہے؟اب وہ بنگلہ دیش سے سفارتی تعلق نہیں رکھے گا یا ان بالک بدھی والے اینکروں سے پوچھ کر کام کرے گا۔اس سنگینی کو بھارت میں ہی محسوس نہیں کیاجارہا ہے بلکہ بنگلہ دیش کے ممتاز ہندو بھی اس سے نالاں ہیں -مثال کے طور پر بنگلہ دیش کے ہندو جاریہ مہا جوت کے جنرل سکریٹری ایڈوکیٹ گوبند چندراشیکھر ہرمانک کا یہ بیانxاور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر چھ اگست کی سہہ پہر وائرل ہو اجو حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے انہوں نے لکھا
“بنگلہ دیش میں ہندو محفوظ ہیں۔ اگر ہندوستانی شیخ حسینہ سے اتنی محبت کرتے ہیں تو وہ مودی کو ہٹا کر شیخ حسینہ کو اپنا وزیراعظم بنائیں۔ ریپبلک ٹی وی بنگلہ دیش میں ہونے والی سیاسی پیش رفت کو ہندوستان میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لیے استعمال کررہا ہے “. اس میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں بغاوت اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بنگلہ دیش چھوڑنے کے بعد بھارتی نیوز چینلز میں کس قسم کی رپورٹنگ کی گئی اور وہاں کی اقلیتوں پر اس کا کیا اثر پڑا۔
ارنب گوسوامی کے ریپبلک ٹی وی جیسے چینلوں کے لیے یہ پورا واقعہ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم سے متعلق چند تصویروں تک محدود تھا۔”
ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شیخ حسینہ کے بنگلہ دیش چھوڑنے سے پہلے اور بعد میں ہونے والے واقعات جن میں تقریباً چار سو افراد کی جانیں گئیں ان میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔ تحریک کے دوران شیخ حسینہ نے مخالفین پر جو تباہی مچا رکھی تھی اس کا رخ بغاوت کے بعد ان کی پارٹی عوامی لیگ کے حامیوں کی طرف ہوگیا۔ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ‘عوامی لیگ’ کے حامی کے طور پر دیکھا جاتا تھا اس لیے وہ بھی نشانہ بنے۔مگر بھارت کے نیوز چینلوں کے لیے ایشو صرف بنگلہ دیش کے ہندو ہیں ۔بی جے پی کے ایک لیڈر تو ایک کروڑ بنگلہ دیشہی ہندوؤں کا استقبال کرنے تیار ہیں ۔اس بیانیہ کو یوپی کے سی ایم یوگی نے اپنے گرما گرم بیان نے ہوا دی
پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کی یہی سمجھ آج پاکستان اور چین ہی نہیں، نیپال، سری لنکا، میانمار،مالدیپ جیسے پڑوسی بھی بھارت سے دور ہو گئے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے مودی حکومت نے بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں پر ہونے والے ظلم پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ بھارت میں اقلیتوں پر حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کو ‘اندرونی معاملہ’ قرار دے کر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور دیگر ممالک کو خاموش کرایا ہے۔اب جبکہ دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے کسی کے سامنے کوئی پردہ نہیں رہا ہے -سرکار نے بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت کا مسئلہ جس زورشور سے اٹھایا اس نے ہمارے اقلیتوں سے متعلق متضاد رویہ کو ہی عیاں نہیں کیا ہے بلکہ ان طاقتوں کو ہندستان کی اقلیتوں پر بولنے کا جواز فراہم کردیا جو وقتا فوقتا ان کے حالات پر رپورٹ اور بیان دیتی رہتی ہیں ۔ہم نے ان پر تنقید کرنے کا اخلاقی حق کھو دیا ہے ۔بھارت سرکار نے بنگلہ دیش کی ہندو اقلیت کے حالات پر تشویش ظاہر کرکے یقینا اپنی بین اقوامی ذمہ داری ادا کی بلکہ ایک ذمہ دار ملک ہونے بھی ثبوت دیا ہے ،لیکن ایسا کرتے وقت ہم نے دوسروں کو یہ حق استعمال کرنے کا دروازہ بھی کھول دیا ہے بہر حال ہمیں آدم خور میڈیا کا بھی علاج ڈھونڈنا ہوگا جو ہندو مسلم نفرت کی آگ بھڑکانے کے بہانے تلاش کرتا ہے ۔یہ پورے سماج کی ذمہ داری تاکہ ملک جس سماجی تانے بانے سے تیار ہوا ہے اس پر آنچ نہ آئے