ایک لا کالج کے پرنسپل کے خلاف نماز پڑھنے، اس کی ترغیب دینے، لائبریری میں ’ملک مخالف‘ کتاب رکھنے، مسلمان اساتذہ بھرتی کرنے اور ’لو جہاد‘ کو فروغ دینے جیسے الزامات پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اس کے نتیجے میں حکومت نے ان سے زبردستی استعفیٰ لیا۔ مگر اب ڈیڑھ سال بعد سپریم کورٹ نے ان کے خلاف درج مقدمے کو ’غیر مناسب‘ قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر خارج کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈاکٹر انعام الرحمان ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں واقع گورنمنٹ نیو لا کالج کے سربراہ تھے، جنھیں دسمبر 2022 میں اس وقت معطل کر دیا گیا جب بی جے پی کے طلبہ ونگ سے منسلک ایک گروپ نے ان کے خلاف تعصب جیسے سنگین الزامات عائد کیے۔
ڈاکٹر انعام الرحمان کے خلاف مقدمہ تو خارج ہو گیا مگر جو زخم ان کے دل پر لگے ہیں شاید ہی وہ مندمل ہو سکیں۔ بی بی سی نے ڈاکٹر انعام الرحمان سے اس مقدمے اور اس کے ان پر پڑنے والے اثرات پر تفصیل سے بات کی ہے۔
اگرچہ ڈاکٹر انعام الرحمان نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے کہ ان کے ریٹائر ہونے سے چند دن قبل انھیں انصاف ملا ہے مگر شاید جو درد ان کے سینے میں ہے وہ مزید بڑھ گیا ہے۔
بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے پروفیسر انعام الرحمان جذباتی ہو گئے اور روتے ہوئے کہا کہ ’میرے 38 سال کے ٹیچنگ کیریئر میں کبھی بھی کسی طرح کا کوئی الزام نہیں لگا تھا۔ کبھی کوئی انکوائری نہیں ہوئی تھی، ایک ’اظہار وجوہ‘ کا نوٹس تک نہیں جاری ہوا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ کالج کی بہتری کے لیے اپنی تمام تر قوتیں لگانے کے باوجود وہ خود کو مشکل میں پاتے ہیں۔ ’میں باہر سے اساتذہ لے کر آیا۔ باہر کے اچھے کالجوں سے رابطہ قائم کیا۔ گورنمنٹ کے سینیئر افسران سے جا کر ملاقاتیں کیں۔ چاہتا تھا کہ آنے والی نسلوں کو دقت نہ ہو۔ لیکن اس کا کیا فائدہ ہوا؟‘
ان پر یہ بھی الزام لگایا کہ پروفیسر انعام الرحمان نے مسلمان اساتذہ کو کالج میں نوکریاں دی ہیں اور ہندو طلبہ کے خلاف امتحانات میں امتیازی سلوک کرتے ہیں۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پروفیسر رحمان نے ملک کی اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
ڈاکٹر رحمان کے خلاف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ’ایف آئی آر کا جائزہ لینے سے یہ بات ظاہر ہے کہ ایف آئی آر ایک ’غیرمعقول‘ ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے‘ اور ’ایف آئی آر ان پر لگے کسی بھی الزام کو ثابت نہیں کرتی‘۔
عدالت نے اس معاملے میں ریاستی حکومت کے مؤقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ظلم و ستم کا معاملہ لگتا ہے‘۔
ڈاکٹر انعام 31 مئی کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ابھی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی محکمانہ انکوائری میں انھیں اگلے ماہ انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا ہے۔
’ویب سائیٹ لائیو لا‘ کے مطابق عدالت نے حکومت کے وکیل سے سوال کیا کہ ’ریاست مدھیہ پردیش ایسے معاملے میں عدالت میں ایک ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کو بھیج رہی ہے؟ ۔۔۔ واضح طور پر ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ظلم و ستم کا معاملہ ہے۔‘عدالت نے مزید کہا کہ ’کوئی انھیں یعنی درخواست گزار کو پریشان کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ہم تفتیشی افسر کو نوٹس جاری کریں گے۔
ڈاکٹر انعام الرحمان نے یہ بھی کہا کہ کالج میں کچھ ایسے طالب علم بھی ہیں جنھوں نے دو سال تک فیس ادا نہیں کی ہے۔ ان کے مطابق ’میں نے ان سے کہا کہ یہ ایک سرکاری کالج ہے اور آپ کو فیس کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ میں نے ان پر سختی کی‘۔
لیکن ان طلبہ میں سے کئی نے ڈاکٹر انعام الرحمان اور دیگر مسلم اساتذہ کے خلاف سنگین الزامات لگا دیے مثلاً یہ کہ انھیں جان بوجھ کر امتحانات میں فیل کیا جا رہا ہے۔ انعام الرحمان کہتے ہیں کہ ’ہمارا کہنا تھا کہ اس میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ امتحانات تو یونیورسٹی لیتی ہیں، نہ کہ کالج‘۔
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد انھیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے حکومت کو لکھ کر دیا کہ میں نے دباؤ میں استعفیٰ دیا ہے۔ میں کوئی اپنی ذمہ داری سے نہیں بھاگ رہا‘
ہ کالج اور طلبہ کی بہتری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو یاد کرتے ہوئے رو پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے پرنسپل رہتے ہوئے بھی کوئی کلاس نہیں چھوڑی۔ میں کالج میں دس بجے سے رات ساڑھے آٹھ نو بجے تک رہتا تھا کہ اسے کافی آگے لے کر جاؤں گا‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کا بیٹا جوڈیشل آفیسر ہے، بیٹی ڈاکٹر ہیں، داماد پروفیسر، بیوی ریٹائرڈ جج اور اب ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے کالج اور طلبہ کے لیے کچھ کریںانھوں نے بھری ہوئی آواز میں کہا کہ ’میں نے بچوں کو پڑھانے میں پوری زندگی لگا دی۔ لیکن آخری لمحے میں مجھے یہ نتیجہ دیکھنے کو ملا‘۔