راجھستان کے شہر اودے پور میں جمعے کی صبح ایک سرکاری سکول کے دو طلبا کے درمیان لڑائی ہوئی جس کے بعد معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ شام تک شہر میں آتشزنی، پتھراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
شہر کے بازار خوف کی فضا کی وجہ سے بند ہو گئے۔ اس دوران کئی سیاح جو ویک اینڈ پر اودے پور پہنچے تھے، شہر چھوڑ گئے۔
کشیدگی کے بعد انتظامیہ نے شہر اور گردونواح میں انٹرنیٹ سروسز بھی بند کر دی ہیں۔
ضلع کلکٹر کے حکم کے مطابق تمام سکول اور کالج اگلے احکامات تک بند رہیں گے۔ انتظامیہ نے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوجا پاٹھ اور نماز جیسی مذہبی سرگرمیاں گھر پر ہی ادا کی جائیں۔ضلع کلکٹر کے مطابق یہ سارا معاملہ ایک مسلمان طالب علم کے اپنے ہندو ساتھی پر چاقو حملے سے شروع ہوا۔
اودے پور کی میونسپل کارپوریشن اور محکمہ جنگلات کی ٹیم نے اس طالب علم کے گھر کو گرا دیا، جس پر چاقو مارنے کا الزام ہے اور یہ سب پولیس کی موجودگی میں ہوا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اودے پور شہر سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر منا لال راوت نے کہا کہ انھیں اطلاع ملی ہے کہ یہاں غیر قانونی تجاوزات کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔کنہیا لال قتل کیس کے بعد اودے پور ایک بار پھر فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے خبروں میں ہے
ڈونگر پور – بانسواڑہ کے ایم پی راجکمار راوت نے بلڈوزر چلانے کی کارروائی پر سوال اٹھائے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اودے پور شہر میں سکول کے بچوں کے درمیان چاقو زنی کا واقعہ قابل مذمت ہے، مجرم کو قانون کے تحت سزا دی جائے، لیکن آج بی جے پی حکومت نے ایک نابالغ کے گھر پر بلڈوزر چلا کر مذہب پرستی کا زہر گھولنے کی کوشش کی ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر بلڈوزر چلانا ملک کے مستقبل کو نفرت کی طرف دھکیلنا ہے۔‘
اسی طرح پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) نے مسلم لڑکے کے خاندان کے ساتھ کیے جانے والے ‘بلڈوزر انصاف’ کا سخت نوٹس لیا ہے اور بی جے پی حکومت کے مکان کو مسمار کرنے کے اقدام کو غیر قانونی، فرقہ وارانہ اور امتیازی قرار دیا ہے۔ پی یو سی ایل نے کہا کہ ریاستی حکام کا ‘چن کر نشانہ بنانے’ کا طریقہ بنیادی حقوق اور قدرتی انصاف کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دی ہندو اخبار کے مطابق پی یو سی ایل کی صدر کویتا سریواستو نے کہا: ’اس مقام پر 200 سے زیادہ مکانات تعمیر کیے گئے ہیں، لیکن حکام نے صرف اس نوجوان کے خاندان کو ہی نشانہ بنایا تاکہ کچھ شرپسندوں کی طاقت کی ہوس کو پورا کیا جا سکےجو اس طرح کے فرقہ وارانہ کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘ یہاں تک کہ دوست اور رشتہ دار بھی پولیس کی کارروائی کے خوف سے بے گھر خاندان کے افراد کو پناہ دینے سے انکار کر رہے تھے۔
’نوٹ بک پر جھگڑا‘
جمعے کی صبح تقریباً 10:30 بجے اودے پور کے ایک سکول میں دو طلبا کے درمیان لڑائی ہوئی۔ اس دوران ایک طالب علم نے دوسرے پر چاقو سے حملہ کر دیا۔
سکول کے اساتذہ نے زخمی طالب علم کو چند کلومیٹر دور واقع ضلع ہسپتال میں داخل کرایا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی شہر کی ہندو تنظیمیں سڑکوں پر نکل آئیں اور احتجاج شروع کر دیا۔
اس دوران شہر کے کئی علاقوں میں ہجوم سڑکوں پر نکل آیا اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور توڑ پھوڑ کی گئی۔
لوگوں کی بڑی تعداد نے ہسپتال کے باہر جمع ہو کر شدید نعرے بازی شروع کر دی۔ زخمی طالب علم کا جمعے کو آپریشن ہوا اور بتایا جا رہا ہے کہ اس کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔
راجستھان پولیس کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس واقعے کی وجہ بتائی۔
پولیس افسر نے کہا کہ ’دونوں بچے ایک ہی کلاس میں پڑھتے ہیں۔ ان کا نوٹ بک اور کتابوں پر جھگڑا ہوا۔ یہ بظاہر معمولی بات بعد میں بڑھ گئی۔‘’پھر یہ معاملہ ایک دوسرے کے خاندانی پس منظر تک چلا گیا، دونوں بچوں میں لڑائی ہوئی جس میں ایک نے دوسرے پر چاقو سے حملہ کر دیا۔‘’دونوں طلبا کے درمیان کچھ دن سے جھگڑا چل رہا تھا لیکن جمعے کو سکول میں لنچ ٹائم کے دوران ایک بار پھر دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور ایک طالب علم نے دوسرے کو چاقو مار کر زخمی کر دیا۔‘۔
طالبعلم پر حملے کی خبر شہر میں پھیلتے ہی ہندو تنظیموں نے کئی علاقوں میں احتجاج شروع کر دیا۔ ایک شاپنگ مال پر پتھراؤ کیا گیا، گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی اور آگ لگائی گئی۔ ہجوم نے مذہبی مقامات کے سامنے بھی ہنگامہ کیا۔
ان تمام واقعات سے متعلق کئی ویڈیوز بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں ہجوم نعرے لگاتا اور توڑ پھوڑ کرتا نظر آتا ہے۔
اودے پور کے ایک رہائشی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لوگوں کو ٹارگٹ بنایا گیا، توڑ پھوڑ کی گئی اور آگ لگا دی گئی۔‘
راجستھان کے ڈائریکٹر جنرل پولیس یو آر ساہو نےبتایا کہ ’قریبی علاقوں سے پولیس فورس یہاں بھیجی گئی۔ فی الحال حالات قابو میں ہیں۔ نابالغ طالب علم کو حراست میں لے لیا گیا اور اس کے والد کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔‘