تحریر: نیلووا رائے چودھری
خار کیف میں پھنسے ہندوستانی طلباء کے پاس ہندوستانی سفارت خانے سے کوئی نہیں پہنچا۔ نوین کے والد نے تکلیف دہ انداز میں کہا۔ میڈیکل کا طالب علم نوین پہلا ہندوستانی شہری ہے جس کی یکم مارچ کو یوکرین پر روسی حملے میں المناک موت ہوئی ۔
یہ یوکرین میں ہندوستانی سفارتی مشن کی قابل رحم حالت ہے۔ اس نے کیف میں اپنا بوریا بستر باندھا اور لاویل کی طرف روانہ ہوگیا۔ لاویل یوکرین کی مغربی سرحد پر ہے۔ اس نے یوکرین میں پھنسے ہندوستانیوں کے لیے ایڈوائزری جاری کرنے کے علاوہ کچھ خاص نہیں کیا۔ کسی سے رابطہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ اس بات سے پوری طرح واقف ہے کہ پچھلے دو ہفتوں کے دوران کتنے ہندوستانی یوکرین چھوڑ چکے ہیں۔ اس نے 15 فروری کو اپنی پہلی ایڈوائزری جاری کی تھی۔
28 فروری کو، وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا،’ہمیں نہیں معلوم کہ کتنے ہندوستانیوں نے ایڈوائزری جاری کرنے اور جنگ شروع ہونے کے درمیان کتنے ہندوستانیوں نے یوکرین چھوڑا۔ ہمیں لگتا ہے کہ ایسے تقریباً 8,000شہری ہیں ۔‘
بھارت کی سفارتی پوزیشن غیر موثر
یوکرین اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ہندوستان نے بہت دیر سے ردعمل ظاہر کیا۔ اس کے باوجود کہ مغربی انٹیلی جنس ہفتوں سے کہہ رہی تھی کہ یوکرین پر فوری حملہ کیا جائے گا۔ پھر بھی سفیر پارتھا ستپتھی اور ان کا عملہ خاموش رہا۔ اور ہندوستانیوں بالخصوص طلباء کو ہندوستان کی سفارتی پوزیشن اور غیر موثر سفارتی رویہ کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
ہزاروں ہندوستانی خاص طور پر میڈیکل کے طالب علم خار کیف میں پھنسے ہوئے ہیں اور اب ہندوستان انہیں بحفاظت نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ طلباء کو ریلوے اسٹیشنوں اور دیگر سرحدوں پر جانے کے لیے مشورے جاری کیے جانے کے باوجود ستپتی اور ان کا عملہ غیر حاضر رہا۔
پھرایک کہانی اور بھی ہے۔ جنگ کے درمیان پھنسے ہندوستانیوں کو نکالنے کے آپریشن کو ’آپریشن گنگا‘ کا نام کیوں دیا گیا ہے؟ شاید ’شیوراتری‘ سے متاثر ہو کر، یا اتفاق سے – پی ایم نریندر مودی نے بھگوان شیو کی طرح اپنے وزراء کو یوکرین روانہ کیا ہے تاکہ وہ یوکرین چھوڑنے والے ہندوستانیوں کے بہاؤ کو قابو کر سکیں ۔ انہیں راستہ دکھا سکیں۔
ہندوستانیوں کو واپس لانے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے اب ہندوستانی فضائیہ کی مدد لی گئی ہے۔
بدقسمتی سے، نہ تو ہندوستانی فضائیہ اور نہ ہی ’خصوصی ایلچی‘ یا وزراء یوکرین میں داخل ہوں گے، کیونکہ اس کی فضائی حدود بند ہے۔ جیوتی رادتیہ سندھیا رومانیہ اور مالدووا، کرن رجیجو سلواکیہ، سابق سفارت کار اور اب وزیر ہردیپ پوری ہنگری اور جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ کو پولینڈ بھیجے گئے ہیںہیں۔
یوکرین کے لوگ ناخوش ہیں
لیکن یوکرین چھوڑنے کی کوشش کرنے والے ہندوستانیوں کو یوکرین کے اندر سنگین مسائل اور مشکلات حتیٰ کہ امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اس نے جس غصے اور نسل پرستی کا سامنا کیا ہے وہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ اس کا خود سے کم اور بھارتی رویہ سے زیادہ تعلق ہے جس کا اظہار حکومت نے عالمی سطح پر کیا ہے۔
بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کی جارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد پر ووٹ نہیں دیا۔ یہ روسی فوجیوں کے یوکرین میں داخل ہونے کے بعد ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ووٹنگ سے بھی گریز کیا جس نے روسی حملے کی مذمت کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یوکرین نے اسے بھی اچھی طرح نہیں لیا ۔
اب ولادیمیر پیوتن جوہری طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دے رہا ہے، اور بھارت کنی کاٹ رہا ہے ۔ روس کی مذمت نہیں کر رہا، اس سے یوکرینی بہت ناخوش ہیں۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے مودی کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت میں خاص طور پر درخواست کی تھی کہ ہندوستان اقوام متحدہ میں سیاسی طور پر یوکرین کی حمایت کرے۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ دارالحکومت کیف سمیت پورے یوکرین کے ہندوستانی طلباء کو ملک چھوڑنے کے لیے ٹرینوں میں سوار ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے اور کچھ کو ناراض یوکرین کے سرحدی محافظوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
طلباء کا کہنا ہے کہ ہندوستانی سفارت خانے نے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے لیکن راستے میں یا باہر نکلنے کے مقامات پر مدد کے لیے کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ وزارت خارجہ نے یوکرین کے پانچ ہمسایہ ممالک کی سرحدوں پر اپنا عملہ تعینات کر رکھا ہے لیکن سرد اور ناموافق موسم میں کئی دنوں سے پیدل سرحد تک پہنچنے والے طلباء کو کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔
سکھ کے ساتھی، دکھ کے نہیں
اس سے پہلے کئی سفیر ایسے تھے جنہوں نے مثال قائم کی تھی۔ ایسا ہی معاملہ لیبیا میں ہندوستان کے سفیر ایم منیمیکالائی کا ہے۔ 2011 میں، وہ خود لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کو گرانے کے لیے یورپی حملوں کے درمیان ہندوستانیوں کو نکالنے کے لیے سرت پہنچ گئی تھیں۔ انہوں نے ذاتی طور پر اس بڑے آپریشن کی نگرانی کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ 16,000 ہندوستانیوں کو وہاں سے نکالا جائے۔
یمن میں سفیر اوصاف سعید اور لبنان میں سابق سفیر نینگچا لوہوم اور عراق میں سفیر سریش ریڈی یہ سب مثالیں ہیں۔ 1990 میں، تقریباً 170,000 ہندوستانیوں کو کم سے کم ہنگامہ آرائی کے ساتھ کویت سے نکالا گیا۔ واپسی پر نہ کوئی پھول دیا گیا اور نہ ہی وزراء کے ساتھ کوئی تصویر کھنچوائی گئی۔ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھی ان مسائل کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں کوئی ہندوستانی نہیں مارا گیا۔
اگر یوکرین سے بحفاظت گھر آنے والے طلباء کو جنگ زدہ ممالک سے باہر نکلنے کے بارے میں مدد اور ہدایات دی جاتیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کی بہتر دیکھ بھال کی گئی ہے۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ اعلیٰ رہنما فون پر بات کر رہے ہیں کہ ہندوستانیوں کو یوکرین سے محفوظ طریقے سے کیسے نکالا جائے۔ لیکن طالب علم کی المناک موت اور اس پر کچھ ہندوستانیوں کے تبصروں نے لیڈروں کی باتوں کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متحارب ممالک اور ان کے پڑوسیوں کے ساتھ رہنماؤں کی بات چیت بے نتیجہ رہی۔ اس سے ہندوستانیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اس کے علاوہ یوکرین کے مقامی لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ’ہندوستانی لوگ ‘خوشی کے ساتھی ہیں، غم کے نہیں‘۔ ضرورت پڑنے پر وہ ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔ یہ پہلے سے مشکل صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔
(بشکریہ : دی کوئنٹ )