آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ یوم آزادی کے موقعہ پر وزیر اعظم کے ذریعہ سیکولر سول کو ڈ اور کمیونل سول کو ڈ کا شوشہ چھوڑ نے کو ایک فتنہ قرار دیتا ہے اور یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ مسلمان کسی بھی قیمت پر قانون شریعت ( مسلم پرسنل لا) سے دستبردار نہیں ہوسکتے-
آل انڈیا مسلم پرسنل پرسنل بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں وزیر اعظم کے ذریعہ یوم آزادی پر کئی گئی تقریر میں سیکولر سول کو ڈ اور کمیونل سول کو ڈ کا شوشہ چھوڑ نے پر سخت حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک سوچا سمجھا فتنہ قرار دیا- ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ مسلمانان ہند متعدد بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان کے عائلی قوانین شریعت کے عطا کردہ ہیں، جس سے کوئی بھی مسلمان کسی بھی قیمت پر دستبردار نہیں ہوسکتا۔ خود ملک کی مقننہ نے شریعت اپلیکشن ایکٹ 1937 کو منظوری دے کر اور دستور ھند میں مذہب پر چلنے، اس کے مطابق زندگی گزارنے نیز اپنے کلچر کے تحفظ کو ایک بنیادی حق قرار دیا ہے-
انہوں نے کہا کہ دیگر مذاہب کے عائلی قوانین بھی اپنے مذہب اور قدیم روایات پر مبنی ہیں- لہذا ان سے چھیڑ چھاڑ اور سب کے لئے کوئی سیکولر کو ڈ بنانے کی کوشش بنیادی طور پر مذہب کی نفی اور مغرب کی نقالی ہے، جس کا حق عوام کے چنندہ نمائندوں کو ہرگز بھی نہیں دیا جاسکتا- ملک کے دستور کا بار بار حوالہ دیتے وقت اس بات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ یونیفارم سول کو ڈ کا ذکر دستور کے باب IV کے رہنما اصولوں میں کیا گیا ہے-اس باب میں درج تمام ہدایات لازمی اور ضروری نہیں ہیں اور نہ ہی وہ عدالت کے ذریعہ نافذ العمل ہیں نیز باب III میں درج بنیادی حقوق کو ان پر بالادستی حاصل ہے- ہمارا دستور ایک ایسے وفاقی سیاسی ڈھانچے اور رنگا رنگی پر مبنی معاشرے کا تصور دیتا ہے، جہاں مذہبی فرقوں اور تہذیبی وحدتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی تہذیب و تمدن کو برقرار رکھنے اور اپنے پردنل لاز پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے-
بورڈ کے ترجمان نے آگے کہا کہ وزیر اعظم کا دستوری لفظ یونیفارم سول کو ڈ کے بجائے سیکولر سول کو ڈ کا استعمال بھی دانستہ اور فتنہ انگیز ہے- وزیر اعظم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یونیفارم کا مطلب ہے پورے ملک اور تمام مذہبی و غیر مذہبی طبقات کے لئے ایک ہی سول کو ڈ ہو اور کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہ ہو۔ ظاہر ہے اس میں اس کی گنجائش نہیں ہوگی کہ کسی طبقہ یا ذات کو اس سے باہر رکھا جاسکے، چاہے وہ ملک کے ادیباسی ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن جب صرف قانون شریعت سے ہی کھلواڑ کرنا پیش نظر ہو تو دوسرے طبقات کی ناراضگی کیوں مول لی جائے-
مذاہب پر مبنی عائلی قوانین کو کمیونل کہہ کر وزیر اعظم نے نہ صرف یہ کہ مغرب کی نقالی کی ہے بلکہ مذہب پر عمل کرنے والی ملک کی غالب اکثریت کی اہانت بھی کی ہے جس کا تمام مذہبی طبقات کو سخت نوٹس لینا چاہیے- بورڈ یہ واضح کردینا بھی ضروری سمجھتا ہے جو لوگ کسی بھی مذہبی بندش سے آزاد ہوکر اپنی عائلی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ان کے لئے پہلے ہی سے اسپیشل میرج ایکٹ(Special Marriage Act 1954)اور انڈین سکسیشن ایکٹ (The Indian Succession Act 1925) موجود ہیں۔ لہذا شریعت اپلیکیشن ایکٹ اور ہندو قوانین کو بدل کر سیکولر کو ڈ لانے کی کوئی بھی کوشش قابل مذمت اور ناقابل قبول ہوگی-
ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ بی جے پی حکومت کے نامزد چیئرمین لا کمیشن نے 2018 میں واضح طورپر کہا تھا کہ اس مرحلہ میں یونیفارم سول کو ڈ نہ ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب – لہذا 15, اگست کے اس موقع پر بجائے اس کے کہ وزیر اعظم ملک کی آزادی میں تمام طبقات پر مشتمل مجاہدین آزادی کی قربانیوں اور کارناموں کو یاد کرتے اور دستور ہند میں آزاد، خوشحال، عدل و قسط اور امن و سلامتی پر مبنی بھارت کا جو خواب دکھایا گیا ہے، تمام ہندوستانیوں کو ساتھ لے کر اس کو سچ کر دکھانے کا عہد کرتے تو یہ شاید زیادہ بہتر ہوتا لیکن انہوں نے سیکولر اور کمیونل اصطلاحوں کا استعمال کرکے سماج میں مذہب بیزاری اور مذہب دشمنی کا بیج بوکر اپنی پارٹی کے تخریبی ایجنڈے کو ہی پروان چڑھایا ہے۔ مسلم پرسنل لابورڈ کو امید ہے کہ ملک کے امن پسند اور انصاف پسند شہری اس تخریبی اور انتشار پر مبنی ایجنذے کو پوری طاقت و یکجہتی کے ساتھ مسترد کردیں گے۔