جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خاں نے آسام کے بار پیٹا ضلع کے 28 بنگالی زبان بولنے والےمسلمانوں کو ’فارنر ٹریبونل‘ کی جانب سے غیر ملکی قرار دیئے جانے کے بعد حراست میں لینے کی مذمت کرتے ہوئے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ’’ حراست میں لیے گئے مسلمانوں کو غیر قانونی اور مشکوک ووٹر قرار دینا، انتہائی توہین آمیز اور غیر انسانی ہے۔ انہیں غیر ملکی قرار دے کر ٹرانزٹ کیمپوں میں بھیجنا ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون کے غلط استعمال کی نشانی ہے ۔ حراست میں لیے گئے لوگوں میں سے بیشتر اَن پڑھ ، انتہائی مفلوک الحال اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں تو اپنے خلاف مقدمات تک کا علم نہیں تھا اور نہ ہی انہیں ’فارنر ٹریبونل‘ میں مناسب قانونی نمائندگی ملی جس کی وجہ سے انہیں اس غیر انسانی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور ٹرانزٹ کیمپوں میں بھیج دیئے گئے‘‘۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار پریس کے لیے جاری ایک ریلیز میں کیا۔
ملک معتصم خاں نے ’فارنر ٹربیونل‘ کے کام کاج کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس ٹربیونل پر من مانی اور سیاست سے متاثر ہوکر فیصلے کرنے کا شبہ کیا جاتا رہا ہے۔ موجودہ صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو بالخصوص ’ بنگالی بولنے والے مسلمانوں ‘ کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آسام این آر سی ‘ کے دوران غیر ملکی قرار دیے گئے ملوگوں میں سے تقریباً دو تہائی ہندو تھے جبکہ مسلمان صرف ایک تہائی تھے۔ مگر حراست میں بیشتر مسلمانوں کو لیا جا رہا ہے اور انہیں غیر منصفانہ طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ ٹربیونل نے جو احکامات جاری کیے ہیں وہ قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ یہ شہریوں کو دیئے گئے قانونی حقوق اور تحفظ کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حراست میں لیے گئے تمام لوگوں کی فوری رہائی کی جائے اور ٹریبونل کی کارروائیوں پر روک لگائی جائے۔ یہ گرفتاریاں قانون کے مطابق نہیں ہیں اور یہ انصاف اور انسانیت کے مسلمہ اصولوں کے بھی خلاف ہے‘‘۔
جماعت اسلامی ہند ان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے جو ’ این آر سی ‘ کے غلط استعمال کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کی قانونی و اخلاقی مدد کے لیے تیار ہے۔ جماعت ، سیوسائٹی اور ملک کے تمام میڈیا سے گزارش کرتی ہے کہ وہ اس صورت حال سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آگاہ کریں اور اس مسئلے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اسے قومی بحث کا موضوع بنائے۔ ہم حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان اقدامات پر نظر ثانی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی بھی شہری کو غیر ملکی قرار دے کر ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ نیز اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ بلا تفریق مذہب و ملت اور ذات و عقیدہ ملک میں ہر فرد کی عزت اور حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ۔