امریکی صدرڈونڈ ٹرمپ کی تازہ دھمکیوں کے بعد،ایران کا بھی لب و لہجہ سخت ہوگیا ہے ۔امریکی حملے کے بعد ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن پر براہِ راست انتباہ جاری کیا گیا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو متبہ کیا گیا کہ آپ نے یہ جنگ شروع کی ہے، اب ہم اس کا خاتمہ کریں گے۔
ایرانی ٹی وی چینل نے امریکہ کو ایک اور وارننگ جاری کی ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن کا کہنا ہے کہ اب خطے میں موجود ہر امریکی شہری اور فوجی ہمارے نشانے پر ہے۔ دوسری جانب، امریکہ نے بغداد میں واقع اپنے سفارت خانے کی سکیورٹی سخت کر دی ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ حملے سے نمٹا جا سکے۔
وہیں امریکی حملے پر ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ امریکہ کے اس حملے سے تاریخ بدل جائے گی ۔ امریکہ میں بھی اس حملے پر سیاسی ردعمل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ ڈیموکریٹک رکنِ کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے ایران پر حملے کو بنیاد بناتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے (Impeachment) کی کارروائی کی مانگ کی ہے۔یو ایس ہاؤس اسپیکر مائیک جانسن نے اس پر کہا کہ صدرٹرمپ نے بالکل درست فیصلہ کیا اور وہی کیا جس کی اس وقت ضرورت تھی۔
•••30ہزار پاؤنڈ کا بم:امریکہ کے B-2 بمبار طیاروں نے ایران پرحملہ کیا۔ امریکہ نے ایران کے تین جوہری ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ایک بڑا فضائی حملہ کیا۔ امریکی ایئر فورس نے ایران کے تین اہم جوہری مراکز ، فردو، نطنز اور اصفہان کو B-2 اسٹیلتھ بمبار اور GBU-57 یعنی بنکر بسٹر بم سے تباہ کر دیا۔ان حملوں کے بعد اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ مزید شدت اختیار کرنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ایران نے ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ انصار اللہ کے پولیٹیکل بیورو کے رکن، حاجم الاسد نے کہا کہ ’واشنگٹن کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ نے انتباہ دیا ہے کہ امریکی مداخلت سب کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق تہران نے جوابی کارروائی کا اعلان کیا ہے، جس سے خطے میں ایک بڑے جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے خبردار کیا ہے کہ فردو پر حملے سے ریڈیولوجیکل اخراج (Radiological Leakage) کا خطرہ ہے، تاہم فی الحال عوام کے لیے کوئی بڑا خطرہ موجود نہیں ہے۔ فردو میں اعلیٰ سطح پر افزودہ یورینیم تیار کیا جا رہا تھا، جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
روس اور چین پر نگاہیں:: ایران کے اتحادی ممالک، چین اور روس کے ردعمل پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ ایران کو امید تھی کہ حملے کی صورت میں یہ ممالک اس کا ساتھ دیں گے، لیکن دونوں نے اب تک کسی بھی قسم کی عسکری مداخلت سے انکار کیا ہے۔ البتہ روس نے سفارتی طور پر ایران کی حمایت کی ہے، جبکہ چین نے خطے میں امن قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر جنگ طول پکڑتی ہے تو یہ عالمی طاقتیں بالواسطہ طور پر شامل ہو سکتی ہیں، جس سے ایک عالمی جنگ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔