اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ پٹی میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی حکمرانی کو ختم کرنے کے اپنے ہدف کا اعادہ کیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے گریجویٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ”کسی بھی لمحے شدید لڑائی میں واپسی کے لیے تیار ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ”ہمارے تمام یرغمالی، بغیر کسی استثنیٰ کے، گھر واپس آئیں گے۔ حماس غزہ پر حکومت نہیں کرے گی۔ غزہ کو غیر فوجی بنا دیا جائے گا، اور اس(حماس) کی جنگی قوت کو ختم کر دیا جائے گا۔‘‘ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ فتح ”مذاکرات‘‘ یا ”کسی اور طریقے سے‘‘ حاصل کی جا سکتی ہے۔
غزہ سیزفائر معاہدے کا دوسرا مرحلہ جنگ کے حتمی خاتمے اور بقیہ یرغمالیوں کی رہائی کی طرف لے جانا چاہیے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ حماس غزہ میں مستقل جنگ بندی اور مکمل اسرائیلی انخلا چاہتی ہے۔ اسرائیل حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے اپنے جنگی مقصد پر اصرار کر رہا ہے۔ غزہ پٹی میں اب بھی 60 سے زائد یرغمال بنائے گئے اسرائیلی موجود ہیں، جن میں سے نصف کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔اسی دوران حماس کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات معطل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ حماس کے سینئر رہنما احمد مرداوی نےمیسیجنگ ایپ ٹیلیگرام پر لکھا کہ ان کا گروپ اس وقت تک جنگ بندی پر بات نہیں کرے گا، جب تک اسرائیل 600 کے قریب ان فلسطینی قیدیوں کو رہا نہیں کرتا، جنہیں گزشتہ ہفتے کے روز رہا کیا جانا تھا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو حماس کے حلقوں سے معلوم ہوا کہ ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے اور یہ گروپ ثالثوں کے ساتھ رابطے کر رہا ہے۔ حماس نے ہفتے کے روز چھ اسرائیلی یرغمالیوں کو غزہ پٹی میں ریڈ کراس کے نمائندوں کے حوالے کیا تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ان چھ یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل 600 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دے گا، جن میں سے 50 عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ تاہم بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا کہ اسرائیل ان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا، ”جب تک اگلے یرغمالیوں کی ذلت آمیز تقاریب کے انعقاد کے بغیر رہائی کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی،‘‘ فلسطینی قیدیوں کی رہائی رکی رہے گی۔