ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے ایران کے ’پرامن ایٹمی پروگرام‘ پر امریکی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے امریکہ نے ریڈ لائن عبور کی ہے۔اتوار کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی ایسی مثال نہیں ملتی ہے۔
ابی بی سی کے مطابق نھوں نے خبردار کیا کہ واشنگٹن میں موجود جنگی جنون کی شکار حکومت اپنی جارحیت کے نتیجے میں پیدا صورتحال کے لیے ذمہ دار ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا ایران کیا آپ خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے گا اور آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا، عباس عراقچی نے کہا کہ بس اتنا کہوں گا کہ ہمارے پاس کئی آپشن ہیں۔انھوں نے کہا کہ جب ہم مذاکرات کر رہے تھے تب بھی ہمیں مغربی ممالک پر بھروسہ نہیں تھا۔ اب ہمارے پاس مزید وجوہات ہیں کہ ہم ان پر بالکل بھروسہ نہ کریں۔ایرانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ سفارتکاری کا راستہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ ’مگر ہم ابھی ایسی صورتحال میں نہیں کہ ہم فیصلہ کریں کہ کیسے سفارکاری کو ایک بار پھر موقع دیں اور کس کے ساتھ۔ تو فی الحال ہمارے جواب کا انتظار کریں۔‘
پریس کانفرنس کے دوران عراقچی نے کہا کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی مذمت کی جانی چاہیے ورنہ اس سے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کی نفی ہوگی‘’ایران این پی ٹی کا دستخط کنندہ ہے لیکن یہ معاہدہ اسے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘انھوں نے سوال کیا کہ ایران اور دیگر ممالک جو پر امن مقاصد کے لیے جوہری توانائی استعمال کرنا چاہتے ہیں، وہ این پی ٹی پر دستخط کیوں کریں۔ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے ایران اور امریکی عوام دونوں کو ’دھوکہ دیا۔‘
عباس عراقچی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اس وعدے پر منتخب ہوئے تھے کہ وہ امریکہ کی ہمارے خطے میں مہنگی جنگوں میں شمولیت کو ختم کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے نہ صرف ایران کے ساتھ اس سفارتکاری کے عزم کا غلط استعمال کیا بلکہ اپنے ہی ووٹروں کو بھی دھوکہ دیا