اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں جاری حالیہ جنگ کے دوران بھاری معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے، جو کہ اسرائیل کی اب تک کی سب سے طویل جنگ ہے۔اگرچہ اس جنگ کا ایک سال مکمل ہونے کے قریب ہے مگر اس کے خاتمے کے فی الحال آثار دکھائی نہیں دیتے۔
’العربیہ بزنس‘ نے "دی کنورسیشن” ویب سائٹ کی طرف سے شائع کردہ ایک رپورٹ کا تجزیہ کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گیارہ ماہ کی جنگ کے بعد اسرائیل کو برسوں بعد اپنے سب سے بڑے معاشی چیلنج کا سامنا ہے، جیسا کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے امیر ترین ممالک میں اسرائیل کی معیشت سب سے زیادہ سست روی کا شکار ہے۔
سات اکتوبر 2023ء کے حملوں کے بعد ہفتوں میں اسرائیل کی جی ڈی پی میں 4.1 فیصد کمی آئی یہ کمی 2024ء تک جاری رہی جو پہلی دو سہ ماہیوں میں 1.1 فیصد اور اضافی 1.4 فیصد تک گر گئی۔
یکم ستمبر کو ہونے والی عام ہڑتال اگرچہ بہت ہی مختصر مدت کے لیے تھی مگر اس نے اسرائیل کی معاشی صورت حال کو مزید خراب کرنے میں کردار ادا کیا۔
پورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں معیشت کی مکمل تباہی کے مقابلے میں اسرائیل کو درپیش معاشی چیلنجز بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے طویل جنگ جاری رہنے سے اسرائیلی مالیات، کاروباری سرمایہ کاری اور صارفین کے اعتماد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے اسرائیل کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی، بڑی حد تک اس کے ٹیکنالوجی کے شعبے کی بہ دولت ملک کی سالانہ جی ڈی پی فی کس 2021 میں 6.8 فیصد اور 2022 میں 4.8 فیصد اضافے کے ساتھ مغربی ممالک سے کہیں زیادہ تھی۔
لیکن اس جنگ کے پھوٹ پڑنے کے بعد چیزیں ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگئیں۔ جولائی 2024ء کی اپنی پیشن گوئی میں بینک آف اسرائیل نے 2024ء کے لیے اپنی نمو کی پیشن گوئی 2.8 فیصد سے کم کر دی ہے۔