سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے غزہ میں جنگ جاری ہے۔ اسرائیل نے اس دن سے بہی غزہ پر بمباری شروع کردی تھی۔ صہیونی بربریت میں 219 دنوں کے دوران 35034 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے تاریخ کی بدترین جارحیت شروع کرتے ہوئے حماس کے رہنما یحینی السنوار کو سات اکتوبر کے حملے کا معمار اور ’’مردہ چلنے والا‘‘ قرار دیا۔ اسرائیل نے یحییٰ السنوار کے قتل کو اپنے وحشیانہ حملوں کے اہم ہدف کے طور پر پیش کیا تھا۔
نیو یارک ٹائمز کے تجزیے کے مطابق سات ماہ بعد بھی یحییٰ السنوار کی بقا اسرائیلی جنگ کی ناکامی کی علامت بن گئی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کا زیادہ تر حصہ تباہ کر دیا ہے لیکن حماس کی سینئر قیادت بڑی حد تک سلامت ہے۔ اکتوبر کے حملے کے دوران پکڑے گئے بیشتر یرغمالیوں کو رہا کرانے میں بھی اب تک اسرائیل ناکام رہا ہے۔
یہاں تک کہ اسرائیلی حکام جو سنوار کو قتل کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ باقی یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے اسی سے بالواسطہ بات چیت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اسرائیل اور امریکہ کے حکام کے مطابق یحییٰ السنوار نہ صرف حماس کے ایک رہنما کے طور پر بلکہ ایک سخت مذاکرات کار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اور اب تک میدان جنگ میں اسرائیل کی فتح کو کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
مصر اور قطر میں ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے دوران یحییٰ السنوار کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غزہ کے نیچے سرنگوں کے نیٹ ورک میں چھپے ہوئے ہیں اور مذاکرات سے متعلق کسی بھی فیصلے کی منظوری ان سے لی جاتی ہے۔
حماس کے حکام کا اصرار ہے کہ یحییٰ السنوار حماس کے فیصلوں میں حتمی رائے نہیں رکھتے۔ امریکی اور اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ یحییٰ السنوار حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ سے چھوٹے ہیں لیکن وہ پردے کے پیچھے مستقل جنگ بندی کے فیصلے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق یحییٰ السنوار کی منظوری کا انتظار اکثر مذاکرات کو سست کر دیتا ہے۔
اسرائیلی حملوں نے غزہ کا زیادہ تر مواصلاتی ڈھانچہ تباہ کر دیا لیکن امریکی حکام اور حماس کے ارکان کے مطابق بعض اوقات یحییٰ السنوار کو پیغام پہنچانے میں ایک دن اور جواب موصول ہونے میں ایک دن لگ جاتا ہے۔
اسرائیلی اور مغربی حکام کے نزدیک یحییٰ السنوار ان مذاکرات کے دوران ایک سفاک مخالف اور ایک سیاسی کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔ وہ اسرائیلی معاشرے کا تجزیہ کرنے اور اس کے مطابق اپنی پالیسیوں کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھنے والے ثابت ہو رہے ہیں۔
سات اکتوبر کے حملوں کے معمار اور ماسٹر مائنڈ کے طور پر یحییٰ السنوار ماسٹر مائنڈ نے ایسی حکمت عملی اپنائی ہے جس کے تحت اسرائیل کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ حماس کے مطابق اس حکمت عملی کے تحت بہت سے فلسطینی شہریوں کا قتل اسرائیل کے ساتھ جمود ختم کرنے کی ضروری قیمت تھی۔
انٹیلی جنس سے واقف لوگوں کے مطابق امریکی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے یحییٰ السنوار کے محرکات کا اندازہ لگانے میں مہینوں گزارے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یحییٰ السنوارکا اصل محرک اسرائیل سے بدلہ لینے اور اسے کمزور کرنے کی خواہش ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یحییٰ السنوار نے جنگ بندی مذاکرات کے اہم مراحل کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف عوامی غصہ بھڑکانے کے لیے کچھ اسرائیلی قیدیوں کے ویڈیو کلپس جاری کئے۔ اب کچھ اسرائیلی چاہتے ہیں کہ باقی یرغمالیوں کو رہا کرایا جائے خواہ اس کا مطلب حماس کے مستقل جنگ بندی کے مطالبات پر اتفاق کرلیا جائے اور حماس کو ہی غزہ کے اقتدار پر برقرار رکھا جائے لیکن نیتن یاھو جنگ کے خاتمے پر راضی ہونے سے ہچکچا رہے ہیں۔
نیتن یاھو کا جنگ ختم کرنے پر راضی نہ ہونے کی وجہ ان کے کچھ دائیں بازو کے اتحادیوں کا دباؤ ہے۔ ان اتحادیوں نے حماس کو برقرار رکھ کر جنگ ختم ہونے کی صورت میں استعفیٰ دینے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ اسرائیلی اور امریکی انٹیلی جنس افسران کا خیال ہے کہ یحییٰ السنوار کی حکمت عملی جنگ کو اس وقت تک جاری رکھنا ہے جب تک کہ اس سے اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچتا رہے۔ اسی طرح اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بھی زد پڑتی رہی ہے