امریکی و اسرائیلی ایجنسیوں کو یحییٰ سنوار تک پہنچنے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ گیا۔ حماس سربراہ دونوں ممالک کی انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کی پہنچ سے ہی باہر ہیں۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیلی اور امریکی حکام نے جنوری میں اس وقت ایک بڑی کامیابی کی امید کی تھی جب اسرائیلی کمانڈوز نے جنوبی غزہ کے علاقے میں ایک زیر زمین سرنگوں کے نیٹ ورک پر چھاپہ مارا۔ اس کارروائی کا مقصد حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو گرفتار کرنا تھا، جو 7 اکتوبر کے اسرائیل پر ہونے والے حملوں کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ حملہ 31 جنوری کو کیا گیا، لیکن سنوار کچھ دن پہلے ہی وہاں سے جا چکے تھے۔ وہاں صرف کچھ دستاویزات اور 10 لاکھ ڈالرز ملے تھے، تاہم اسرائیل کو یحییٰ سنوار کی تلاش جاری ہے۔ بعض اخبارات کے مطابق اسرائیل فوجیوں کے سرنگ میں پہنچنے پر یحییٰ سنوار کی کافی تک گرم تھی، مگر اسے ان کے موجودہ مقام کے بارے میں کوئی یقینی ثبوت نہیں مل سکا۔
امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ یحییٰ سنوار کی رہنمائی میں حماس نے اسرائیل کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی اور ان کا زندہ رہنا اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یحییٰ سنوار کی گمشدگی نے اسرائیل کو حماس کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے سے محروم کر رکھا ہے۔
یحییٰ سنوار نے اپنے تمام الیکٹرانک مواصلات کو طویل عرصہ قبل ترک کر دیا تھا اور وہ اب بھی "انسانی کورئیرز” یعنی ساتھیوں کے ذریعے اپنے گروپ سے رابطے میں رہتے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کے مقام کا پتہ لگانے کےلیے سخت محنت کر رہی ہیں لیکن ان تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سنوار کو ختم کرنے سے جنگ کے حالات میں بہت بڑی تبدیلی آ سکتی ہے اور اس سے اسرائیل کو ایک بڑی فوجی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ تاہم اس سے مغویوں کی رہائی پر کیا اثر پڑے گا، یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔
یحییٰ سنوار کو غزہ میں حماس کا سب سے اہم رہنما سمجھا جاتا ہے اور ان کی گرفتاری یا موت اسرائیل کےلیے بہت بڑی کامیابی ہو سکتی ہے لیکن فی الحال وہ اسرائیلی اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔