تحریر: نازش ہما قاسمی
جی! بھنگاروالا، انتقامی سیاست اور سیاسی عصبیت کا شکار، سرکاری ایجنسیوں سے لوہالینے والا، بے باک، بے خوف، نڈر، جری، آزاد طبع، صاف گو، ماہر سیاست، اِنتظامی امور سے واقف ، سیاسی مدبر، حق گو، مشہور ومعروف سیاسی رہنما، لیڈر، قائد، رہبر، زور آور، مہاراشٹر حکومت میں کابینی وزیر، مسلم قد آور رہنما، وزیر اقلیتی بہبود، این سی پی ترجمان، ریاستی صدر، مہاراشٹر آئین ساز کونسل کا رکن، مراٹھا مردآہن شرد پوار کا قریبی رفیق و ہم سفر، صاحب حیثیت نواب ملک ہوں۔ میری پیدائش 20 جون 1959 کو آزاد ہندوستان میں ریاست اترپردیش کےبلرام پور ضلع کی اترولا تحصیل کے چھوٹے سے قصبے دھسواں میں محمد اسلام ملک کے یہاں ہوئی، میرے خاندان کے کچھ افراد کھیتی باڑی اور دیگر کاروبار سے منسلک تھے؛ اس لیے معاشی طور پر ابتدا سے ہی مستحکم تھا۔ 1970میں اہل خانہ بلرام پور سے ممبئی منتقل ہوگئے میری عمر اس وقت تقریباً دس سال تھی، ابتدائی تعلیم و تربیت کےلیے مجھے نور باغ اردو اسکول میں داخل کرایاگیا، یہاں میں نے چوتھی کلاس تک تعلیم حاصل کی پھر اس کے بعد ڈونگری کے جی آر نمبر ٹو اسکول میں ساتویں کلاس تک زیر تعلیم رہا اس کے بعد انجمن اسلام ممبئی سی ایس ٹی سے علمی تشنگی بجھائی اور وہاں 11 ویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد معروف برہانی کالج میں داخل ہوا، یہاں 12 ویں کے بعد بی اے میں داخلہ لیا؛ لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر بی اے فائنل نہیں کرسکا اور تعلیم منقطع کردی پھر خاندانی کاروبار سے منسلک ہوگیا۔
میری شادی 1980 میں مہ جبیں سے ہوئی جس سے میرے چار بچے ہیں، دو لڑکے فراز اور عامر، دو لڑکیاں نیلو فر اور ثناء ۔ میرے والد نے ممبئی منتقل ہونے کے بعدسب سے پہلے ڈونگری میں چندی (کپڑوں کے ٹکڑوں) کا کاروبار شروع کیا پھر اس کے بعد کرلا منتقل ہوگئے اور یہاں سے بھنگار( کباڑ ) کا کاروبار شروع کیا تعلیم سے انقطاع کے بعد میں نے والد کا ہاتھ بٹایا اور ان کے کاروبار میں معاون رہا؛ لیکن زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں جانے کا شوق پیدا ہوچکا تھا اور یہ شوق طلبہ تحریک سے بیدار ہوا تھا ۔ زمانہ طالب علمی میں ممبئی یونیورسٹی نے کالج کی فیس بڑھا دی تھی، اس کی مخالفت میں تحریک چل رہی تھی میں بھی اس تحریک میں شامل ہوگیا اور دوران تحریک پولیس کے لاٹھی چارج کا شکار ہوکر زخمی ہوگیا اس کے بعد ہی سیاست میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ 1984 میں کانگریس کے سینئر لیڈر گروداس کامت کے خلاف لوک سبھا الیکشن لڑا؛ لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔1991میں برہن ممبئی مہانگرپالیکا کے انتخاب میں شریک ہونے کےلیے بطور امیدوار کانگریس سے ٹکٹ طلب کیا؛ لیکن ٹکٹ نہیں مل سکا، پھر کانگریس سے الگ ہوکر مینکا گاندھی کی نئی قائم کردہ پارٹی ’سنجے وچار منچ ‘ سے منسلک ہوا۔1992میں بابری مسجد کے سانحہ عظیم کے بعد نیرج کمار کے ساتھ ’سانجھ سماچار ‘ نامی اخبار بھی نکالا جسے باقی نہیں رکھ سکا اور بند کرنا پڑا، 1995میں سماج وادی پارٹی ممبئی میں بابری مسجد سانحے کے بعد ملائم سنگھ کے کردار کی وجہ سے مقبول ہورہی تھی، سماج وادی پارٹی میں شامل ہوا اور مسلم اکثریتی علاقے نہرو نگر سے اسمبلی الیکشن لڑا؛ لیکن یہاں بھی کامیاب نہیں ہوسکا اور شیوسینا کے سوریہ کانت یہاں سے جیت گئے؛ لیکن ایک سال بعد ہی الیکشن کمیشن نے ان کی نامزدگی رد کردی اور پھر1996 میں الیکشن ہوا، اور میں اس بار کامیاب ہوگیا۔ 1999تک کانگریس این سی پی مہا گٹھ بند ھن میں سماج وادی شامل تھی میں اس حکومت میں ریاستی وزیر تھا، پھر سماج وادی پارٹی میں رہنے کے دوران میری کچھ سیاسی لیڈروں سے ان بن ہوگئی اور مجھے سماج وادی پارٹی چھوڑنی پڑی، اس کے بعد میں این سی پی میں شامل ہوگیا اور جب سے اب تک این سی پی میں شامل ہوں۔ 2005 کے دوران کانگریسی این سی پی گٹھ بندھن میں ولاس رائو دیشمکھ کی سرکار میں بھی میں بطور ریاستی وزیر تھا، مجھ پر گھوٹالے کے الزام عائد کیے گئے، انا ہزارے نے بھی میرے خلاف آواز بلند کی؛ لیکن 12سال بعد سپریم کورٹ نے مجھے اس معاملے میں بری کردیا۔
ہاں میں وہی نواب ملک ہوں جسے اپنے ’بھنگار والا‘ ہونے پر فخر ہے اور میں نے بارہا اپنے انٹرویو میں اس پر فخر ظاہر کیا ہے بعض لوگ مجھے میرے اس کاروبار کی وجہ سے نیچا دکھانے اور عار دلانے کی کوشش کرتے ہیں؛ لیکن جتنا وہ مجھے نیچا گرانے کی کوشش کرتے ہیں میں اتنا ہی بلند ہوجاتا ہوں۔ فی الحال مہاراشٹر کی اگھاڑی حکومت میں وزیر برائے اقلیتی امورو اوقاف و اسکل ڈیولپمنٹ ہوں۔ ہاں میں وہی نواب ملک ہوں جو اپنے دو ٹوک بیانوں کی وجہ سے معروف ومشہور ہوں اور اس کی وجہ سے ہمیشہ سیاسی حریفوں کے درمیان کھٹکتا رہا ہوں، مجھے زیر کرنے کےلیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے گئے اور آخر میں ای ڈی کا سہار ا لے کر سیاسی انتقام لیاگیا۔ ہاں میں وہی نواب ملک ہوں جس نے کہا تھا کہ گاندھی گوروں سے لڑے تھے اور ہم چوروں سے لڑیں گے، ہاں میں وہی نواب ملک ہوں جس نےامیت شاہ کو جنرل ڈائر سے تشبیہ دی تھی، جس نے پلوامہ حملے پر مودی کو گھیرا تھا، جس نے بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا کو آئٹم گرل قرار دیا تھا، جس نے مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ کے تعلق سے کہا تھا کہ ان کی نیند کھو گئی ہے اب چین کھونے کا وقت آگیا ہے۔ جس نے بی جے پی حامی کنگنا راناوت کے آزادی والے بیان پر کہا تھا کہ ایسے بیان سے پہلے وہ گانجا پیتی ہے اس سے تو پدم شری لے لینا چاہئے تھا۔ ہاں میں وہی نواب ملک ہوں جس نے آرین خان معاملے میں ای ڈی کے افسر سمیر وانکھیڑے کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی تھی ، میں نے کہا تھا کہ این سی بی نے پرائیوٹ آرمی بنارکھی ہے اس کے ذریعے وصولی کی جاتی ہے، میں نے سمیر وانکھیڈے کو کٹھ پتلی قرار دیا تھا، ان کے دستاویزات پر بھی سوال اُٹھائے تھے اور ان کا فراڈ ثبوت کے ساتھ پوری ہندوستانی قوم کے سامنے رکھ دیا تھا، اس قضیہ میں روزانہ نت نئے انکشافات کرکے مرکزی حکومت کا چین وسکون غارت کردیا تھا، سمیر وانکھیڑے کے معاملہ میں میری تحقیقات کو دیکھ کر لوگ کہنے لگے تھے کہ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ نواب ملک کو سی بی آئی کا سربراہ بنادے۔ ہاں میں وہی نواب ملک ہوں جسے سیاسی انتقام کےتحت23؍ فروری 2022 کو نشانہ بنایا گیا اور ای ڈی نے طویل پوچھ تاچھ کے بعد منی لانڈرنگ سمیت دیگر معاملوں میں ملزم بتاتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ میں نے گرفتاری کے وقت تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’میں ڈروں گا نہیں ، ہم لڑیں گے اور جیتیں گے‘‘۔ فی الحال میں3 مارچ تک کسٹڈی میں ہوں ان شاء اللہ مجھے امید ہے خدا مجھے باعزت طور پر رہائی عطا کرے گا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)