(ابھی ہم جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نوحہ پڑھ رہے تھے کہ مشرقی تہذیب و اخلاق کی علامت شہر رامپور سے بھی ایسی خبر آئی ،یہ خبریں اندر سے جھنجھوڑ رہیں ہیں کہ اس تہذیبی ٹکراؤ میں ہم کہاں کھڑے رہ گیے ،کیا ‘ہمیں ہوگیے داستاں کہتے کہتے’ ، یہ مضمون اسی کرب کا اظہار ہے )
گردوپیش:محمد مسلم غازی
اتر پردیش کا تاریخی شہر رامپور علم و عرفان، تہذیب و شائستگی اور اخلاقی اقدار کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پردہ محض روایت نہیں بلکہ انسانی غیرت اور نسوانی وقار کی علامت ہے۔ خواتین کا احترام اور اخلاقیات کی پاسداری ہمیشہ اس شہر کی پہچان رہی ہے۔
مگر گذشتہ دنوں “دیوالی مہااتسو” کی ایک رات نے اس شہر کی تہذیبی شناخت پر سوالیہ نشان لگادیا -فرقہ وارانہ ہم آہنگی سماجی میل جول کے لئے ثقافتی پروگرام کے نام پر منعقدہ اس محفل میں نیم عریاں رقاصاؤں نےرقص پیش کیا ۔ اسٹیج پر روشنیوں کی چکاچوند میں ان محترماوں نے اپنی کمر کے لٹکے جھٹکوں سے حاضرین کو تو خوب محظوظ کیالیکن رامپور کی صدیوں پرانی روایتی حیا اور وقار کو مجروح کر دیا۔رقص پر تالیاں بجتی رہیں، قہقہے گونجتے رہے، ضمیر سسکیاں بھرتا رہا مرد تماشائی بن گئے، عورتیں بھی برقعوں میں لپٹ کر یہ تماشا دیکھتی رہیں اور اسٹیج پر تھرکنے والی اداکاراوں کی دلجوئی کرتی رہیں ، بعض برقعہ پوش خواتین اور ہماری نوعمر بیٹیاں تو جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور اسٹیج پر چڑھ کررقص شروع کردیا ،ان کے ساتھ آنے والے مرد اس منظر کو خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہے اور یہی خاموشی دراصل ہماری اخلاقی موت ہے۔
جب تفریح کے نام پر حیا کو قربان کر دیا جائے، تو وہ معاشرہ اپنی بنیادیں خود کھوکھلی کر لیتا ہے۔ رامپور، جو ادب و اخلاق اور تہذیب کا گہوارہ تھا، اس رات اپنے ہی اصولوں اور روایت کے خلاف کھڑا نظر آیا۔
حیا، وقار اور خودداری کسی معاشرتی رسم کا نہیں بلکہ انسان کی طرز زندگی اور شناخت کا حصہ ہیں۔ جب یہی اقدار پامال ہوں، تو شہر کی روشنیاں بھی اندھیروں کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ لمحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تہذیب لباس یا رقص میں نہیں، بلکہ کردار اور رویّے میں ہوتی ہے۔
افسوس ہم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، زبانیں خاموش رکھیں، اور سوچ لیا کہ “یہ تو زمانے کا چلن ہے۔” درحقیقت یہی سوچ ایک قوم کے زوال کی بنیاد بنتی ہے۔ غیرت صرف عورتوں کے پردے کا نہیں، مردوں کے کردار کا بھی امتحان ہے۔ مرد جب خاموش رہیں، تو حیا مر جاتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی تہذیبی پہچان کو دوبارہ زندہ کریں۔ ہر شخص اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھے، ہر محفل میں وقار اور شائستگی کو ترجیح دی جائے۔ اگر ہم نے آج بھی غفلت برتی تو آنے والی نسلیں صرف تاریخ میں پڑھیں گی کہ “رامپور کبھی حیا و تہذیب کا مرکز تھا۔”(‘پیاز کے چھلکے’ کے فیس وال سے )








