گردوپیش: مولانا ذکی نور عظیم ندوی
وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن(VIF) خود کو آزاد، غیر جانب دار اور علمی تحقیق کے اعلیٰ معیار کا حامل ادارہ قرار دیتا ہے۔ اس کا قیام دسمبر 2009 میں نئی دہلی کے چانکیہ پوری میں پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت کی 1993 میں الاٹ کردہ زمین پر ہوا ۔ اس کے بانی قومی سلامتی کے موجودہ مشیر اجیت ڈووال ہیں، جو 2005 میں انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اپنے قیام سے اب تک یہ ادارہ قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور اسٹریٹجک امور پر فکری اور نظریاتی طور پرکافی سرگرم رہا ہے۔
اس ادارہ کو سوامی وویکانند کے نام پر قومی سلامتی کے چیلنجز پر رہنمائی فراہم کرنے اور ایک مضبوط فکری بنیاد پر ملکی پالیسیوں کو مستحکم بنانےکے مقصد کے لئے قائم کیا گیاتھا ، کیونکہ سوامی جی ہندوستانی روحانیت اور ثقافتی احیاء کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے فلسفے کے زیر اثر فاؤنڈیشن نے قوم پرستی، دفاع، ثقافت اور پالیسی کو اپنا مرکز بنایا، لیکن بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق فاؤنڈیشن کی فکری سمت ہندو قوم پرستی کے نظریے سے ہم آہنگ ہے، اور اس کے پس منظر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کی فکری جھلک نمایاں ہے۔
2011 اور 2012 میں یہ ادارہ اُس وقت سرخیوں میں آیا جب بظاہر اس کی پس پردہ کوششوں سے انا ہزارے، اروند کیجریوال، کرن بیدی اور بابا رام دیو ایک پلیٹ فارم پرآئےاور بدعنوانی کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارا، اور اس پر یہ الزام لگا کہ اس نے اس تحریک کو یوپی اے حکومت کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ تہلکہ جیسے پلیٹ فارم نے یہ دعوی کیا کہ فاؤنڈیشن نریندر مودی کی انتخابی مہم کو نظریاتی پشت پناہی فراہم کر رہا تھا۔ اور اس کی اشاعتوں اور سیمیناروں میں ہندو قوم پرستی کے آثار بارہا دیکھے گئے۔
2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے اور وزیر اعظم بننے کے بعد اس کے ڈائریکٹر اجیت ڈووال کوہندوستان کےقومی سلامتی کا مشیر مقرر کیاگیا تھا۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری نریپیندر مشرا اور ایڈیشنل پرنسپل سکریٹری پی کے مشرا بھی پہلے فاؤنڈیشن میں ہی تھے۔ یہ بھی مانا جاتا ہےکہ وزیر اعظم مودی کچھ عرصے سے فاؤنڈیشن کے کام سے کافی متاثر ہیں۔
اس پس منظر میں 9 اکتوبر 2025 کو افغان طالبان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کا سرکاری دورہ غیر معمولی نوعیت اختیار کرگیا۔ یہ طالبان کے 2021 میں افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا اعلیٰ سطحی دورہ تھا، جسے اقوام متحدہ کی سفری پابندیوں میں عارضی استثنیٰ ملنے کے بعد ممکن بنایا گیا۔ متقی نے نئی دہلی پہنچ کروزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی، اور دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو نئی سطح پر لے جانے کا عزم ظاہر کیا۔
ہندوستان نے کابل میں اپنے تکنیکی مشن کو باضابطہ سفارت خانے کا درجہ دیا اور طالبان حکومت نے یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ متقی نے یہاں کی تاجر برادری سے بھی ملاقات کی اور افغان معدنیات، توانائی، اور تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔اس دورے کا سب سے نمایاں پہلو 12 اکتوبر کو وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن میں ہونے والی وہ تقریب تھی جس میں افغان وزیر خارجہ نے ادارہ میں مختلف تجزیہ کاروں، سابق سفارت کاروں اور دفاعی ماہرین سے خطاب کیا۔ یہ موقع طالبان اور ہندوستان دونوں کے لیے ایک فکری اور سفارتی اسٹیج تھا جو طالبان حکومت کے ساتھ رابطہ کاری کو قانونی اور نظریاتی جواز دینے کا ایک موقع بن گیا۔ متقی نے اپنی تقریر میں دونوں ملکوں کے تاریخی روابط کا ذکر کیا، ربیندر ناتھ ٹیگور کی کہانی "کابل والا” کا حوالہ دے کر انسانی رشتوں کی قربت کو یاد کیا، اور بھارت کو “فرسٹ ریسپانڈر” کہہ کر افغان زلزلے میں فراہم کی گئی امداد پر شکریہ ادا کیا۔
لیکن اس پروگرام پرمسلم حلقوں میں شدید تشویش دیکھی گئی کہ طالبان جیسی سخت گیر اسلامی تحریک کا نمائندہ ایک ایسے ادارے کی مہمان نوازی قبول کر رہا ہے جو خود ہندو قوم پرستی کا محور رہا ہے۔ متعدد پلیٹ فارمزنے اس کو “سیاسی تضاد” اور “اخلاقی مغالطہ” قرار دیا۔ ان کے مطابق طالبان اور آر ایس ایس اپنے اپنے مذہبی حلقوں میں شدت پسندی کے نمائندہ ہیں ایک اسلام کوخاص عسکری نظرسے دیکھتا ہے اور دوسرا ہندوازم کو جارحانہ قوم پرستی میں ڈھالتا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کی ایک تعداد طالبان کے طرزِ حکمرانی اور ان کےمتعدد دیگر نظریہ سے اختلاف رکھتی ہے، اسی طرح انصاف پسند ہندو آر ایس ایس کی تنگ نظری اور اقلیت دشمنی سے بیزار ہیں۔یہ دونوں ایک دوسرے کی عکس اور مذاہب کی روح کے منافی ہیں۔
بعض مسلم حلقےاس بات پر حیران ہیں کہ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ اپنے نظریاتی تضادات کو پسِ پشت ڈال کروہاں جانے پر کیوں تیار ہوئے۔ کئی مذہبی و سماجی تنظیموں نے افغان وزیر خارجہ کے ایک ایسے ادارے سے خطاب پر جو برسوں سے مسلم شناخت کے خلاف فکری و نظریاتی محاذ کھولے ہوئے ہے افسوسناک قرار دیا ہے۔ اورکہا کہ جو فاؤنڈیشن سی اے اے اور این آر سی جیسے امتیازی قوانین کا دفاع کرتا ہے، اسی ادارے میں ایک مسلمان وزیرِ خارجہ کو اعزاز دینا نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کے منافی ہے بلکہ انصاف پسند دنیا کے لیے ایک فکری تضاد ہے۔
طالبان وزیر خارجہ کے دورے پر بھارت کے اندر فکری تقسیم نمایاں ہے۔ ایک طبقہ اسے علاقائی امن کے لیے مناسب سفارتی اقدام سمجھتا ہے، جبکہ دوسرا اسے ایک فکری انحراف کے طور پر دیکھتا ہے۔ طالبان کے نمائندے کا فاؤنڈیشن جانا اس بات کی علامت ہے کہ طالبان کو “ایساقابلِ مکالمہ شراکت دار” سمجھا جارہا ہے جس کے ساتھ مل کر کام کرنا دونوں ملکوں کو ممکن نظر آرہا ہے ۔ مگر انصاف پسند تجزیہ نگاروں کی نظر میں یہ اخلاقی سمجھوتہ ہے۔کیونکہ اگر طالبان اپنی شدت پسندی پر قائم ہیں اور آر ایس ایس اپنی ہندو وچار دھارا پر، تو دونوں کی قربت خطے میں علاقائی امن کے بجائےمذہبی انتہا پسندی کو اور گہرا ہی کر سکتی ہے۔
جب کہ فاؤنڈیشن کے ماہرین نے یہ دلیل دیتے ہوئےکہ ’’مکالمہ ہمیشہ تصادم سے بہتر ہے‘‘ اس ملاقات کو ایک مثبت قدم قرار دیا اور کہا کہ ہندوستان طالبان سے براہ راست بات کرکے افغان عوام کی مدد اور علاقائی سلامتی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ لیکن اس موقف سے وہ مسلم تشویش ختم نہیں ہوئی جو یہ سمجھتی ہے کہ بھارت کی حکومت، اور اس کے فکری ادارے، مسلمانوں کی داخلی سیاسی حیثیت کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی ایسےلوگوں سے تعلقات بنا رہے ہیں جن سے اسلامی دنیا پر منفی اثر پڑتا ہے۔
اس تناظر میں ایک اور فکری نکتہ قابلِ غور ہے کہ طالبان اور آر ایس ایس، دونوں مذہب کو ریاستی طاقت کا ذریعہ بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ طالبان اسلامی شریعت کے نام پر سماج کو محدود اور سخت گیر اصولوں کے تابع بنانا چاہتے ہیں، جبکہ آر ایس ایس ہندو راشٹر کے تصور کے تحت مذہب کو سیاسی بالادستی کا ہتھیار سمجھتی ہے۔ دونوں میں تنوع، برداشت، اور مکالمے کی جگہ محدود ہے، اور یہی وہ پہلو ہے جس پر انصاف پسند مسلمان اور ہندو یک زبان ہو کر اعتراض کرتے ہیں۔ افغانستان میں عورتوں کی تعلیم یا دیگر افکار و نظریات پر پابندی ہو یا ہندوستان میں اقلیتوں پر تشدد دونوں انتہا پسندی کی مختلف شکلیں ہیں۔
افغان وزیر خارجہ کا تاج محل کا دورہ منسوخ ہونا، دیوبند کا مختصر قیام، اور وی آئی ایف میں شرکت یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ طالبان کسی بھی قیمت پر تعلقات بہتر بنانے کیلئے کوشاںہیںاوراس کیلئےایسے اداروں کے قریب پہنچ رہے ہیں جو خود مذہبی شدت پسندی کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ اگر طالبان واقعی ایک نیا چہرہ دکھانا چاہتے ہیں تو انہیں غیر جانبدارتنظیموں اور اداروں سے ربط بنانا چاہئے،اور دیگر تعلیمی اداروں ندوہ ، علی گڑھ مولاناآزاد یونیورسٹی یا جامعہ ملیہ کو بھی اس سفر کا حصہ بنانا چاہئے۔
وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی میزبانی میں افغان وزیر خارجہ کی موجودگی ہندوستانی سفارت کاری کیلئے ایک نئی جہت ضرور ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ متعدد سوالات کا پیش خیمہ بھی ،جیسے کیا یہ طالبان کی نظریاتی تبدیلی کا اشارہ ہے یا محض سیاسی مفاد کا تقاضا؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا ہندو اور مسلمان برادریاں اپنی اپنی شدت پسندی سے نکل کر ایک متوازن فکری فضا قائم کر سکیں گی؟اور اس طرح یہ دورہ امیدوں اور اندیشوں دونوں کا محور ہے۔ اگر اسے رواداری، انصاف، اور بین المذاہب احترام کے تناظر میں سمجھا جائے تو یہ جنوبی ایشیا میں امن کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ محض طاقت کے کھیل کی ایک نئی چال ہے تو طالبان اور آر ایس ایس جیسے فکری انتہاؤں کے درمیان ایک نیا پل نہیں بلکہ نیا تصادم پیدا ہوگا۔ اور یہ بعد میں ہی واضح ہوگا کہ یہ ملاقات مکالمے کی راہ ہموار کرتی ہے یا فکری فاصلے کو بڑھا کرمزید سنگین بنادیتی ہے۔
(Zakinoorazeem@gmail.com)











