دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر اور ایک مشہور سیاسی مبصر اپوروانند کو حال ہی میں ایک ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس نے ہندوستان میں تعلیمی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں گہرے خدشات کو جنم دیا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں نیویارک میں قائم ایک تعلیمی ادارے کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں شرکت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، اور زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان سے اپنی مجوزہ تقریر کا مکمل متن پیشگی فراہم کرنے کو کہا – اس اقدام کو انہوں نے "سنسرشپ” قرار دیا
پروفیسر اپوروانند کو 23 اپریل سے 1 مئی تک انڈیا چائنا انسٹی ٹیوٹ، دی نیو اسکول، نیویارک کی 20 ویں سالگرہ کی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں وہ "عالمی آمرانہ دور میں یونیورسٹی” کے موضوع پر لیکچر دینے والے تھے۔ اس سلسلے میں اس نے دہلی یونیورسٹی سے رسمی چھٹی کے لیے درخواست دی۔
تاہم، نہ صرف ان کی درخواست رجسٹرار کے پاس تقریباً ایک ماہ تک زیر التواء رہی، بلکہ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ معاملہ مرکزی وزارت تعلیم کو بھیجا جائے گا۔ یونیورسٹی نے بعد میں ان کی تقریر کے مکمل متن کا مطالبہ کیا – یہ پہلا موقع نہیں جب کسی ماہر تعلیم سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے پہلے "منظوری” لینے کو کہا گیا ہو۔۔اپوروانند کا موضوع – "عالمی آمریت کے دور میں یونیورسٹیاں” – آج انتہائی متعلقہ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انہیں اس موضوع پر بولنے سے روکنا خود اس بات کی مثال بن جاتا ہے کہ طاقت اور ادارے کس طرح خیالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یونیورسٹیوں کا بنیادی مقصد خیالات کی کھوج اور ان کا آزادانہ اظہار ہے۔ جب یونیورسٹیاں خود ہی نظریات کو دبانے لگتی ہیں تو یہ اس بات کا سنگین اشارہ ہے کہ ادارہ جاتی خود مختاری خطرے میں ہے۔
ہندوستان میں حالیہ برسوں میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں اساتذہ، محققین اور طلبہ کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر سزا دی گئی ہے یا ان کی سرگرمیوں کو "ملک دشمن” کا لیبل لگانے کے بعد اداروں سے نکال دیا گیا ہے۔ اپوروانند کا کیس اس سلسلے کی اگلی کڑی معلوم ہوتا ہے۔