جنگ بندی کے بعد تباہ شدہ غزہ میں امن آتے ہی ایک بار پھر حماس کے جنگجو اپنی پناہ گاہوں سے باہر آ گئے ہیں۔
عسکریت پسند گروہ حماس نے 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ میں نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا بلکہ تاحال غزہ میں اس کا کنٹرول اپنی جگہ قائم ہے۔کو جب حماس نے تین اسرائیلی یرغمال خواتین کو ریڈ کراس کے حوالے کیا تو یہ ڈرامائی مناظر تھے۔ ان یرغمالوں کی گاڑیوں کو سر پر سبز پٹیاں باندھے حماس کے درجنوں جنگجوؤں نے گھیرے میں لے رکھا تھا جن کے ساتھ ساتھ سینکڑوں افراد کا ہجوم بھی تھا۔ یہ سب مناظر براہ راست اسرائیل اور دنیا بھر میں دیکھے گئے۔غزہ میں دیگر مقامات پر سامنے آنے والے مناظر اس سے بھی زیادہ ڈرامائی تھے۔ حماس کی پولیس کے ہزاروں اہل کار سڑکوں پر نکل آئے اور انتہائی تباہ شدہ علاقوں میں بھی یہ دکھائی دیےمعاہدے کے بعد غزہ میں امدادی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور پیر کو حماس کی ماتحت حکومت نے کہا ہے کہ وہ امدادی سامان کی تقسیم کے لیے معاونت کرے گی۔خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق اسرائیل اپنی تمام فوجی قوت غزہ میں استعمال کرنے کے باجود حماس کی حکومت ختم نہیں کر سکا جو اس کی جنگ کے بنیادی اہداف میں سے ایک اسرائیل تواتر کے ساتھ حماس کو غزہ میں شہریوں کے بھاری جانی نقصان اور انفراسٹرکچر کی تباہی کا ذمے قرار دیتا آیا ہے۔تھا۔اسی لیے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فریقین کے درمیان ایک بار پھر لڑائی ہو سکتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نتیجہ موجودہ حالات سے مختلف نہیں ہو گا۔
***گہری جڑیں رکھنے والی تحریک
رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ فلسطینیوں کی اقلیت حماس کی حامی ہے لیکن فلسطینی سوسائٹی میں اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔سن 1980 کی دہائی میں قائم ہونے والی تنظیم کا الگ لاگ مسلح اور سیاسی ونگ ہے۔ اس کے علاوہ حماس اپنا میڈیا اور کئی خیراتی پروگرام چلاتی ہے۔حماس دہائیوں سے ایک منظم شورش جاری رکھے ہوئے ہے جس میں اسرائیلی فورسز پر حملے اور اسرائیل پر خودکُش اور بم حملے جیسی کارروائیاں کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے کئی رہنما قتل ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ نئی قیادت لے لیتی .حماس نے 2006 کے پارلیمانی الیکشن میں لینڈ سلائیڈ کامیابی حاصل کی تھی اور اگلے ہی برس اس نے فلسطینی اتھارٹی سے کشیدگی اور لڑائی کے بعد غزہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔اس کے بعد حماس نے غزہ میں ایک حکومتی ڈھانچہ کھڑا کیا تھا جس میں وزارتیں، پولیس اور بیورو کریسی کا نظام تھا۔ اس کی سیکیورٹی فورسز نے غزہ کے طاقت ور خاندانوں کو ایک صف میں کھڑا کرداسرائیل کے ساتھ ہونے والی گزشتہ چار جنگوں سے حماس غزہ میں اقتدار میں ہے۔ ایران کی مدد سے اس نے اپنی صلاحیتیں بڑھائی ہیں، اپنے راکٹس کی رینج بڑھا کر اسرائیل کے زیادہ اندر تک رسائی کے قابل بنایا ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل کے فضائی حملوں سے بچنے کے لیے حماس نے زیرِ زمین سرنگوں کے اپنے نیٹ ورک کو مزید بڑھایا ہے۔ سات اکتوبر 2023 تک حماس ہزاروں جنگ جوؤں کے دستے تیار کر چکی تھی صلاحیتوں کے ساتھ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک اور منظم دہشت گرد حملہ کیا تھا جس میں اس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں زمین، فضا اور سمندر تینوں راستوں سے حملہ کردیا تھا۔اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر سویلین تھے۔ جب کہ حماس کے جنگجو 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے

۔
***جنگ جو اس سے پہلے نہیں لڑی گئی
اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں لڑائی کا آغاز کیا جس میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں اور اس پٹی میں ہر طرف عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ غزہ کی لگ بھگ 90 فی صد آبادی ایک سے زائد بار بے گھر ہو چکی ہے۔
غزہ میں جنگ کے دوران روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوج کی جانب سے درجنوں جنگجوؤں کو ہلاک کرنے یا کسی کمانڈر کو گرفتار کرنے یا کسی سرنگ، کمپلیکس یا ہتھیار کے ذخیرے کو تباہ کرنے کے اعلانات سامنے آتے رہے۔اسرائیلی فورسز نے حماس کے ٹاپ لیڈر یحییٰ سنوار اور دیگر کئی اہم رہنماؤں کو ہلاک کیا۔ لیکن حماس کی جلاوطن قیادت نہیں بکھری اور یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار نے مبینہ طور پر غزہ میں زیادہ بڑی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔رواں ماہ کے آغاز میں امریکہ کے سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ حماس نے اس سے زیادہ جنگجو بھرتی کر لیے ہیں جتنے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں کھوئے تھے۔
اسرائیل ایک ڈراؤنے خواب سے دوسرے ڈراؤنے خواب میں آنکھ کھول رہا ہے۔۔۔ حماس اب بھی حکومت کرتی رہے گی، سرنگیں بناتی رہے گی اور مزید بھرتیاں کرتی رہے گی کیوں کہ کسی مقامی مقابل کے سامنے آنے کا کئی دباؤ نہیں ہے۔‘‘