امریکہ میں رہنے والے بہت سے غیر ملکی طلبہ گذشتہ چند ماہ سے عجیب و غریب قسم کی بے چینی کا شکار ہیں۔ وہ اپنے سوشل میڈیا فیڈز پر ایک ہی قسم کے واقعات دیکھ رہے ہیں: سادہ کپڑوں میں ایجنٹ غیر اعلانیہ طور پر ظاہر ہوتے ہیں اور طلبہ کو بغیر شناخت والی کاروں میں ڈال کر حراستی مراکز تک لے جاتے ہیں۔
ان طلبہ کو کسی قسم کے مجرمانہ الزامات کا سامنا نہیں ہے بلکہ امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والے فلسطین حامی مظاہروں میں ان کی شمولیت کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے بارہا کہا ہے کہ ویزا ایک ’امتیازی حق‘ ہے جسے کسی بھی وقت مختلف وجوہات کی بنا پر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن طلبہ پر ہونے والا یہ کریک ڈاؤن کہیں زیادہ وسیع دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے ان اقدام کا احاطہ کرنے والی ایک آن لائن نیوز سائٹ انسائیڈ ہائر ایڈ کے ایک ٹریکر کے مطابق امریکہ بھر کے کالجوں میں ایک ہزار سے زیادہ بین الاقوامی طلبہ یا حالیہ گریجویٹس کے ویزے یا تو منسوخ ہو چکے ہیں یا ان کی قانونی حیثیت بدل چکی ہے۔
ایسے میں بہت سے غیر ملکی طلبہ بار بار اپنا سٹیٹس چیک کر رہے ہیں کہ کہیں ان کے ویزے کے ساتھ تو کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔طالب علموں اور کالج فیکلٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ہدف بنا کر حراست میں لیے جانے اور وسیع پیمانے پر ویزے کی منسوخی کی اطلاعات نے کیمپس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ان میں بڑی سرکاری یونیورسٹیوں سے لے کر آئی وی لیگ کے اعلی ادارے شامل ہیں۔اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے کچھ کالجوں میں تو کئی شعبے متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ بیرون ملک جانے والے محققین نے امریکہ واپس جانے سے انکار کر دیا ہے۔بی بی سی نے جن طالب علموں سے بات کی ان میں سے بیشتر نے اس خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کہ میڈیا میں ان کے نام آنے سے وہ نشانہ بن سکتے ہیں۔
بہت سے لوگ‘ جھیں نشانہ بنایا گیا ہے وہ فلسطینی حامی مظاہروں میں ملوث رہے ہیں۔اور مظاہرین کے خلاف یہ کریک ڈاؤن وائٹ ہاؤس کے وسیع تر دباؤ کا حصہ ہے۔ اس کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کی وجہ سے بہت سے کیمپسز میں یہودی طلبہ کے لیے غیر محفوظ ماحول پیدا ہوا ہے۔ وہ مظاہرین پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ انھوں نے حماس سے حمایت کا اظہار کیا ہے۔وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ ان لوگوں کا پیچھا کر رہا ہے جو ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو امریکی قومی مفادات کے خلاف ہیں