تجزیہ :ٹام بیٹمین
امریکی صدر ٹرمپ ایران اسرائیل تنازعے میں ایک بار پھر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے دکھائی دے رہے ہیں، پہلے انھوں نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مکمل حمایت کی اور اب وہ تیزی سے ان تبصروں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
اس اہم تنازعے پر بڑھتی کشیدگی میں ان کے ابہام نے غیر یقینی کی فضا کو مزید بڑھایا ہے۔ اس سب کے دوران وہ کینیڈا میں منقعدہ جی سیون ممالک کے اجلاس سے بھی اٹھ کر چلے گئے اور انھوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن واپس جانے کے لیے ان کے پاس ‘اہم وجہ’ ہے۔وائٹ ہاؤس نے ان کے جی سیون ممالک کے اجلاس سے چلے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘مشرق وسطی کی صورتحال’ اس کی وجہ ہے جبکہ بعدازاں انھوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘اس کا سیز فائر سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔’اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے امریکہ کی ’مکمل مشاورت‘ سے کیے گئے ہیں۔جس کے بعد یہ سوال ابھرتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ٹرمپ پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور اب ٹرمپ کیا اقدامت کر سکتے
***ہیںنتین یاہو کے دباؤ کے آگے جھک جائیں اور کشیدگی کو مزید بڑھائیں
جمعرات کو تہران پر اسرائیلی میزائل حملوں کے بعد ٹرمپ نے ایران کے رہنماوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے اسرائیلی اتحادی کی جانب سے امریکی ببموں سے لیس ‘مزید خطرناک حملوں’ کے لیے تیار رہیں۔
ہمیں ٹرمپ کے بنیادی مقصد کے متعلق علم ہے۔ نیتن یاہو کی طرح انھوں نے کہا ہے کہ ایران ایٹمی بم کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے نتین یاہو کے برعکس ایران کی جوہری صلاحیت ختم کرنے کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان ایک معاہدے کرنا کا کہا ہے۔ ( یہ اقدام ان کے خود ساختہ بیان کردہ عالمی سطح کے ثالث کا عکاس ہے۔)لیکن انھوں نے اس بارے میں بہت شور مچایا ہے کہ وہ اس معاہدے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ کبھی انھوں نے ایران پر طاقت کا استعمال کرنے کی بات کی تو کبھی سفارتکاری پر زور دیا۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے یہاں تک کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملے یا تو معاہدے میں مددگار ہوں گے یا پھر اسے ‘ختم کر دیں گے۔’
ڈونلڈ ٹرمپ کا ناقابلِ پیشن گوئی رویہ اکثر ان کے حامیوں میں بھی نظر آتا ہے جو کہ ایک سٹریٹیجک حقیقت ہے اور خارجہ امور کی نام نہاد ‘میڈ مین’ تھیوری سے مطابقت رکھتا ہے۔
یہ نظریہ وہ ہے جو پہلے ٹرمپ کے مذاکراتی حربوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور یہ تجویز کرتا ہے کہ جان بوجھ کر غیر یقینی یا غیر متوقع طور پر تنازعات میں کشیدگی مخالفوں (یا حتیٰ کہ ٹرمپ کے معاملے میں اتحادیوں) کو تعمیل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ طریقہ صدر رچرڈ نکسن کے سرد جنگ کے کچھ طریقوں سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔نتین یاہو نے مسلسل ٹرمپ پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ ایران کے معاملے میں سفارتکاری کا راستہ اپنانے کی بجائے عسکری راستہ اپنائیں اور امریکی صدر امن کا نوبل انعام جیتنے کی خواہش کے باوجود بلاخر اس دباؤ میں آ کر ایران کی قیادت کو مزید سنگین دھمکیاں دیتے ہوئے کوئی ایسا اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائیں۔
***درمیانی راستے کا انتخاب
اب تک ٹرمپ نے بارہا یہ کہا ہے کہ امریکہ ایران پر اسرائیل کے حملے میں ملوث نہیں ہے۔ مزید کشیدگی ٹرمپ کو ایک اہم اور ممکنہ طور پر ان کی میراث کے خطرات کے موڑ پر لے آئی ہے۔ امریکی بحری بیڑے اور خلیجی ممالک میں موجود ان کے دفاعی نظام پہلے ہی ایرانی میزائلوں کو ناکارہ بنانے میں اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے مشیروں میں سے کچھ ممکنہ طور پر ان کو ایسا کچھ بھی کرنے سے خبردار کر رہے ہیں جو فوری طور پر ایران پر اسرائیل کے حملوں کی شدت میں اضافہ کر سکتا ہے، خاص طور پر کچھ ایرانی میزائلوں کے ساتھ جو اسرائیل اور امریکہ کے دفاعی نظام تو توڑتے ہوئے اسرائیل پر گر رہے اور کافی نقصان کر رہے ہیں۔نیتن یاہو اب اس بات پر دلیل دے رہے ہیں ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کو نشانہ بنانے سے کشیدگی بڑھے گی نہیں بلکہ تنازعہ ختم ہو جائے گا۔
لیکن ایک نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر امریکی اعلیٰ عہدیدار نے چند میڈیا اداروں کو بتایا کہ ٹرمپ نے نتین یاہو پر واضح کر دیا کہ وہ اس اقدام کے خلاف ہیںایران نے پہلے ہی امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے اسرائیل کی مدد کی تو وہ خطے میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا، اور ایسا اب ہو رہا ہے۔اس تنازعے میں کسی بھی امریکی ہلاکت کا خطرہ ممکنہ طور پر امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کی دلیل کو تیزی سے بڑھاوا دے گا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر ٹرمپ پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ پیچھے ہٹیں اور نیتن یاہو سے جارحانہ کارروائی کو جلد انجام تک پہنچانے پر زور دیں۔ (بشکریہ بی بی سی )